نظام تعلیم اورمسلم قوم کی پسپائی
(از: مولانا اشرف رفیق (ایم پی
مادی وسائل کے اعتبار سے جہاں اچھی حکومت و سیاست، اچھا تہذیب و تمدن رنگ ڈھنگ طور طریق عادت و خصلت کی ضرورت ھے، سماج و معاشرت کو بہتر سے بہتر بنانے کی ضرورت ھے، وہیں پر ذہنی ارتقاء بلند افکار، اونچے خیالات، بلند پرواز کام میں ندرت، عمدگی اور رنگت پیدا کرنے کیلیے دماغی عقلی تربیت کی ازحد ضرورت ھے، کیونکہ جہاں کہیں تعلیم و تربیت کا فقدان ہے وہاں کی آب و ہوا کامزہ پھیکا پڑا نظر آتا ھے جہالت کی ھوائیں چلتی دکھائی دیتی ہیں، ایسا معلوم ھوتا ھے کہ انسانیت کا لباس درندوں کو پہنا دیا گیا، رہتا ھے انسانوں کی بستی میں اور کام جانوروں سے بھی بدتر کرتا دکھائی دیتا ھے، خود غرضی مطلب پرستی اسکی سرشت میں داخل ہوتا ھے، مقصد سے کافی دور انجام سے بےخبر ملک و ملت سے ناآشنائی، آدمیت کے تقاضوں سے ناواقف بال اور کھال کا ایک پتلا اور کارٹون سمجھ آتا ھے۔
یہ سب کیوں؟ بھلے برے میں تمییز نہیں، صحیح غلط میں فرق نہیں، حالات پر صبر و ضبط نہیں، بڑوں کا ادب و احترام نہیں، چھوٹوں پر شفقت و رحمت نہیں باہمی معاملات میں زبردست۔بس اپنی ہی دھن میں مست یہ سادہ لوح انسان، اپنے ہی اردگرد رہتے لوگوں کے مسائل میں پھنسا، کبھی ذہنی دباؤ کا شکار، کبھی معاشی پریشانی، کبھی کاروباری شکوے، کبھی اپنوں سے گلے، کبھی غیروں کے رونے، کبھی خوشی کے عالم میں بدمست کبھی غمی کے عالم میں مایوسیاں۔یہ سب نتائج ہیں ناخواندگی کے، گلے شکوے ھیں جہالت و بےعلم کے، دلیل ہے تعلیم سے بعد کے، حجت ھے وحشت و درندگیت، ضد اور ہٹ دھرمی پر۔ واقعہ یہ ھے کہ نبوی اورعصری دونوں ہی سے ربط رکھنا جو شاید پنجگانہ کی فرضیت سے بھی زیادہ ضروری تھا جسکی ہدایت و فہمائش معلم اول اور رسول کائنات نے خود دی تھی اپنے فرمان :طلب العلم فریضة على كل مسلم.الحديث.
جاننا چاھیے کہ دنیا کے جس کونے میں بھی نظام تعلیم ٹھپ ھے یا سردست ھے ہی نہیں اور ایسے ممالک آٹے میں نمک کے برابر ھے، وہاں کا جائزہ لیا جاۓ تو چاہے جس لحاظ سے ھو اگر کھوں کہ وہاں کی ہر لائن معیشت کے تعلق سے ھو، یا سیاست و حکومت کے، معاشرت کے تعلق سے ھو یا معاملات کے تعلق سے سبھی امور میں کچھ نہ کچھ کھوٹ نظر آئیگا۔ بالعکس اگر ان ممالک کو دیکھا جاۓ جہاں 50 فیصد بھی نظام تعلیم سسٹم سنورا ھوا ھے تو ہر چند کے اگر آج وہ ملک یا شہر یاقریہ ترقی پر نہیں لیکن وہ ترقی کی راہ پر گامزن ضرور ھے۔
ہمارا ملک ہندوپاک جسکی حکومت و سیاست کا پورا دھندا عصبیت، قوم پرستی اور افراد پرستی پر چل رہا ھے اور جہاں ترقی کی پہلی سیڑھی تعلیم سے عداوت کے گھونٹ پیے جارھے ھوں، کیا ایسے ملک میں ضرورت نہیں ھے کہ اولا تو ھم اسکے خلاف تحریکیں چلائیں، اور نیا نظام حکومت قائم کریں، تعلیمی اداروں پر حملہ اور ھونے والوں کے خلاف اپنا ووٹ دیں، اور تعلیم کے حق میں آوازیں لگانے والوں کا ساتھ دیں۔ مسلم، ہندو، سکھ عیسائی سب ایک مٹی سے بھائی بھائی، پھر جو قومیت کے نعرے بازیاں کی جارہی ہیں، نفرت کے بیج بورھے ہیں،تفرقہ ڈالنے کی کوششیں کررہے ہیں، جہاں کی عدلیہ کو خریدا اور بیچا جارہا ھو جہاں حق کی نہیں پیسوں کی بولی سمجھے جاتی ھو، بھلا ابھی بتائیں کہ کب تک یہ ظلم کا بازار گرم رہےگا، کب تک ایک دوسرے کا خون پیتے رھینگے۔
سمجھنے اور سنبھلنے کا موقع ھے اپنے بچوں کا تعلیمی معیار پرکھیں، اپنے بچوں کی تربیت پر دھیان دیں، انہیں فہمائش کریں کہ اپنی چند سانسیں اس جہالت کے ساتھ حق تلفی میں ظلم و زیادتیوں میں ضائع نہ کریں۔