ارتقاء اور انسان
از قلم: مفتی محمد کفیل احمد ( ناظم اسلامک ہب)
یہ کائنات ہمیشہ سے نہیں ہے، کسی زمانے میں چاہے کتنے ہی سال پہلے کیوں نہ ہو یہ دنیا و کائنات کا وجود نہیں تھا۔ پھر کسی وقت اس کا وجود ہوا اور اس میں جمادات، نباتات اور حیوانات کا بتدریج ظہور ہوا۔ اس تدریج کی وجہ سے بعض نے سمجھا کہ اسباب پائے جاتے ہیں تو ان کے ساتھ مسببات پائے جاتے ہیں، آگ کے ساتھ جلانا، سورج کے ساتھ گرمی کا ہونا قدرت کا قانون ہے، اسی طرح دنیا چلتی رہے گی، کبھی ختم نہیں ہوگی۔ اور انسان کسی کا پیدا کیا ہوا نہیں ہے بلکہ وہ حیوان یعنی جانور کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ اس طور پر کے جانور آہستہ آہستہ زمانے کے حالات سے سیکھتے ہوئے اور اپنے اندرونی جراثیم میں تبدیلی کرتے ہوئے اس ترقی گے درجے کو پہنچا ہے۔ اسی وجہ سے بہت سے جانوروں کا DNA انسانوں کے DNA سے ملتا ہے۔ بندروں کی کچھ ذاتوں کا DNA تو 99 فیصد تک ملتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکالا گیا کہ یہ دنیا خود سے بنی ہے اور خود سے چل رہی ہے۔ یہ نظریہ ڈارون کا پیش کیا ہوا ہے جس کو Theory of Evolution کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بہت سے عصری تعلیمی اداروں میں اس نظریے کو پڑھایا جاتا ہے جس سے طالب علم غیر دانستہ طور پر یہ خیال کرنے لگتا ہے کہ انسان کو مستقل طور پر پیدا نہیں کیا گیا ہے بلکہ یہ جانوروں کی ترقی یافتہ شکل ہے۔
اس نظریے پر سب سے پہلا سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس دنیا میں چھوٹی سی چیز بنانے کے لیے کسی بنانے والے کا ہونا ضروری ہے تو اتنی بڑی کائنات بغیر بنانے والے کے کیسے بن گئی؟
اس نظریے پر دوسرا سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب کوئی ادارہ بغیر منتظم کے نہیں چلتا ہے، کوئی ملک بغیر حاکم کے نہیں چلتا ہے، چھوٹا سا گھر کسی ذمہدار کا محتاج ہوتا ہے تو اتنی بڑی کائنات اتنے منظم طریقے سے بغیر کسی منتظم کے کیسے چل رہی ہے؟
اس نظریے پر تیسرا سوال یہ اٹھتا ہے کہ قانون قدرت کو کس نے بنایا ہے جو دنیا و کائنات کا نظام چلا رہی ہے؟
اس نظریے پر چوتھا سوال یہ ہوتا ہے کہ اس سے زیادہ سے زیادہ اس زمین پر زندگی کے ارتقاء کی حالت معلوم ہوتی ہے، اس سے پہلے یہ زمین اور یہ کائنات کا وجود کہاں سے آیا؟ اس بارے میں یہ نظریہ خاموش ہے۔ دوسری طرف big bang theory میں کائنات کے ابتداء کا حال بھی معلوم ہوتا ہے، تو سوال ہے کہ چھوٹا سا پٹاخہ کسی کے جلانے پر جلتا ہے تو اتنے بڑے کائنات کی ابتداء کا دھماکہ کس نے کیا؟*
یقینا حقیقت پسند دل یہی کہے گا کہ کوئی چلانے والا ہے، اسی نے اس کائنات کو وجود بخشا ہے اور وہی اس کا انتظام کر رہا ہے۔ AI سے اس کو سمجھا جا سکتا ہے کہ اس کائنات کو بنانے والے نے کچھ codes یعنی اسباب بنائیں جب وہ click ہوتے ہیں تو مسببات کا وجود ہوتا ہے، اور وہ خدا چاہے تو اسباب کے پاۓ جانے پر مسبب کو block کر سکتا ہے۔
پھر سوال ہوتا ہے کہ انسان کا DNA جانوروں کے DNA سے کیسے میل کھاتا ہے؟ تو اس کے لیے دنیا کی تخلیق کی کیفیت کو سمجھ لینا کافی ہوگا۔ دنیا میں سب سے پہلے جوہر کو بنایا گیا جس میں نہ طول ہے نہ عرض ہے نہ عمق ہے۔ پھر محض جسم کو بنایا گیا جس میں نہ بڑھنے کی طاقت ہے نہ سمجھنے کی طاقت ہے جیسے زمین۔ پھر ایسے جسم بنائے گئے جو بڑھتے ہیں لیکن حرکت نہیں کرتے جیسے درخت۔ پھر ایسے جسم بنائے گئے جو بڑھتے بھی ہیں اور حرکت بھی کرتے ہیں لیکن سمجھتے نہیں ہیں جیسے جانور۔ پھر آخر میں خدا نے اصل مقصود یعنی انسان کو بنایا جو بڑھتا بھی ہے، حرکت بھی کرتا ہے اور سمجھتا بھی ہے۔ اسی سمجھ نے انسان کو سب سے ممتاز کر دیا۔ اسی لیے دنیا میں باوجودیکہ 99 فیصد کچھ بندروں کی ذاتوں میں انسانوں والا DNA ہے لیکن وہ آج بھی ترقی نہیں کر رہے ہیں۔ دوسری طرف انسان نے حیرت انگیز ترقی کی ہے، اس نے چاند پر کمندیں ڈال دی ہے، وہ زمین کی گہرائیوں اور آسمان کی بلندیوں میں اپنے وجود کا احساس دلا رہا ہے۔ یہ اس کا صاف ثبوت ہے کہ انسان کو مستقل طور پر بنایا گیا ہے۔ خدا نے یکے بعد دیگرے ہر جنس کے پہلے جوڑے کو خود سے پیدا کیا ہے، اور آگے بھی اسی کی اجازت سے نسل پیدا ہو رہی ہیں، لہذا اس ملحدانہ تصور کے غلط ہونے پر اپنی نسلوں کو آگاہ کرنے اور مذہب کا صحیح علم حاصل کرنے کی ضرورت ہے جو ماں کی گود سے قبر تک انسان کی صحیح رہنمائی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح علم حاصل کرنے اور اس عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین