یونیفارم سول کوڈ اور مسلمان
بسم اللہ الرحمن الرحیم
از قلم: مفتی محمد کفیل احمد
ڈایریکٹر اسلامک ہب
آج پورے بھارت میں مسلم قائدین کی طرف سے یہ بات ہو رہی ہے کہ یونیفارم سول کوڈ کے خلاف اپنی رائے لا کمیشن کو بھیجیں۔ یونیفارم سول کوڈ کا آسان الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ اگر خدا نخواستہ یہ قانون نافذ ہو جائے تو کوئی بھارتی عائلی مسائل میں کورٹ جائے تو اس کے مذہبی یا قبائلی قانون پر فیصلہ نہیں ہوگا جبکہ ابھی عائلی قوانین کی رعایت ہوتی ہے۔ اسی کے ساتھ مسلمانوں کے دار القضاء یا امارت شرعیہ کے فیصلے عائلی مسائل میں کورٹ مسترد کردے گی۔ انسان کورٹ اسی وقت جاتا ہے جب معاملہ نزاع کا ہو، اسلامی شریعت کی اتباع کرنے والے اگر نزاع کی صورت میں علماء سے شرعی طریقہ معلوم کر کے اس پر عمل کریں تو آزادی کی بنیاد پر کوئی سوال نہیں ہوگا، اختلاف اسی وقت ہے جب شرعی حکم کو ماننے سے کوئی انکار کرے اور کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹاۓ۔ تو بنیادی طور پر مسئلہ مسلم مزاج کا ہے، اور جاننا چاہیے کہ حکومت ہند نے عائلی قوانین کے خلاف قانون کسی بے بنیاد وجہ پر نہیں بنایا بلکہ عوام میں پاۓ جانے والے عملی کوتاہیوں کے نتیجے میں بنایا ہے مثلاً اگر کوئی خاتون ( بہتر ہے کہ سمجھنے کے لیے خود کی بہن تصور کریں) آکر یہ کہیں میرے شوہر نے تین طلاق دے دیے ہیں اب ہم دونوں ساتھ رہنا چاہتے ہیں، ایسی صورت میں مفتی تو مجبور ہے کہ وہ شریعت کے مطابق فتویٰ دے اور لکھے کہ *اب دونوں کا ساتھ رہنا ممکن نہیں ہے۔ اگر ساتھ رہنا ہے تو کسی دوسرے سے شادی کر لو اور زندگی گذارو، اگر کسی وجہ سے وہ دوسرا بھی چھوڑ دیں تب دوبارہ پہلے والے سے نکاح ہو سکتا ہے ورنہ نہیں۔* یہ فتویٰ بالکل صحیح ہے اور انسانی مزاج کے حساب سے ہونا بھی ایسی ہی چاہیے، صحیح کیوں ہے؟ اس پر پھر کبھی بات کر سکتے ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان میاں بیوی کو شادی سے پہلے نہیں سمجھایا گیا کہ طلاق تین دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، ایک سے بھی علحیدگی ہو جاتی ہے۔ تو ان دونوں کے علم کی کمزوری ہوئی، اب وہ خاتون کیسے کسی اور سے نکاح کریں؟ کون اس سے نکاح کرے گا؟ اس کے بچوں کا کیا ہوگا؟ خود سوچنے پر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور یہ حلالہ کا جو لفظ اور اندرونی طور پر طریقہ چل پڑا اور جس کا ناجائز استعمال بھی کچھ لوگوں کی طرف سے ہوا ہے وہ اور بھی زیادہ معاملہ کو سنگین بنادیتا ہے۔ اسی طرح وراثت میں باپ کے مرنے پر بہنوں کا حصہ متعین ہے، لیکن اس پر عمل نہیں کیا جاتا ہے اور نہ ہی بچپن سے دینی ذہن سازی ہوتی ہے، اسی لیے بعض بہنیں گھٹ کر اپنے حصے سے محروم ہو جاتی ہے یا بعض کورٹ کے ذریعہ حاصل کر لیتی ہے۔ اس تحریر کا مقصد حکومتِ ہند کی تائید نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے ضمیر کو جگانا ہے کہ اسلام صرف کتابی چیز نہیں ہے، اسلام ایک فکر و عمل کا طریقہ ہے، اور اس کا بقا فکر و عمل سے ہی ہوگا، آج اگر ہم اسلام پر عمل نہیں کر رہے ہیں تو اسلام کو حکومت سے نہیں ہم سے خطرہ ہے۔ مسلم قائدین سے گذارش ہے کہ منظم انداز میں تمام مسلم عوام کے لیے مضبوط، گہری، مؤثر انداز میں دینی تعلیم کا نظام بنائیں چاہے وہ مسلم کسی بھی عمر کے ہو کسی بھی پیشے کے، دوسری چیز مسلم علماء کو ایسے تیار کریں کہ وہ اسلامی حدود سے ناواقفیت والی تنگ نظری اور روایتی طریقے سے آگے بڑھ کر اسلام کو صحیح طریقے سے پیش کرنے والے بنیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ تمام مسلمان زمانے کی جائز ترقی کو قبول کرتے ہوئے اپنے عمل سے اسلام کی جامعیت و ابدیت کو دوبارہ ثابت کرے اور مسلم علماء اپنے علمی گہرائی سے ملمع سازی کیے ہوئے باطل نظریات کے غلط ہونے کو ثابت کردیں۔ اللہ تعالیٰ صحیح فکر عطا فرمائے۔