ڈاڑھی ایک فطری امر ھے
از : محمد اشرف رفیق ایم،پی
سلام کی پہچان و معرفت اپنے خاص خاص شعائر سے ہے جنہیں اپناکر ایک مسلمان اپنی پہچان بناتا ھے،اور حکومتی ریاستی دفتروں،رجسٹروں میں نام سے پہچان کے بجاے کام سے پہچانا جانے کیلیے ان امور فطری اور شرعی کو زیور تن و من بنانے کی ضرورت ھے جنسے آجکا مسلمان کوسوں دور نکلگیا ھے،اورایک عامی مسلمان اور غیر مسلم میں مابہ الامتیاز کوئی شیئ ایسی نہیں جسے دیکھکر پرکھکر ایک مسلمان کو سلامتی کی دعاء دیجاسکے،کہیں کسی جگہ دو شخص راستہ چلرھے ھوں،یا کسی جگہ بیٹھے ہوں جبکہ انمیں کا ایک ہندو دوسرا مسلمان ھو تو سلام کرنے سے قبل بھی سوچنا پڑتا ھے کہ مسلمان بھی کؤی انمیں ھے بھی کہ نہیں۔
اسلیے ضرورت ہے کہ بعضا ان شعار کی جسسے معرفت مسلم کی ہوجاے درکار تھی کیجاے،یوں تو شریعت محمدی علیہ السلام میں شعائر کی تفصیل کیلیے ایک رسالہ چاھیے،لیکن حسب موقع جیساکہ عنوان ڈالا گیا اسی کی وضاحت کیے دیتاہوں۔
تو آئیے منقولات میں جاکر دیکھتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس بارے میں کیا رہنمائی فرماتے ہیں،فرمایا :ابو داؤد شریف کی روایت ہے کہ دس چیزیں انبیاء کی فطرت سے ہیں انمیں سے ایک ڈاڑھی کاذکر ھے،دوسری روایت جسے صاحب مشکاة نے نقل فرمایا،فرمایا :ڈاڑھی کو بڑھاؤ مونچھیں کترواو،یا جیساکہ حضور کا ارشاد ھے،اسی طرح ایک دوسری روایت میں منقول ہے:کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمایی ان مردوں پر جو عورتوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرتے ہیں،(ڈاڑھی منڈاتے ہیں،یا غیر مسنون طریقے سے کٹواتے ہیں بطور فیشن)،اور ان عورتوں پر جو مردوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرتی ہیں،(پہننے اوڑھنے اٹھنے بیٹھنے میں مردوں کی چال چلتی ہیں مثلا)۔
سمجھنا چاہیے کہ اسلام میں مردوں اور عورتوں کو جداگانہ خصوصیات اور امتیازات سے نوازا ھے مرد کو بحیثیت قوت مردانگی اور طاقت و بہادری کے کسب معاش بیرونی کاموں کی ذمہ داری اسی کے سپرد کی اور اسکو عورت پر یکگونہ فضیلت بخشی،(الرجال قوامون علی النساء،)(الایة). اور عورت کو بحیثیت عورت کے چونکہ اسمیں ستر اور پردہ پوشی کا پہلو غالب ھے اسلیے اندرون خانہ کی مہار اسکے ہاتھوں تھمائی،تاکہ حجاب و نقاب میں کسی طرح کی کھلبلی واقع نہ ہو۔(یدنین علیهن من جلابيبهن ذالك أدنى أن يعرفن فلايوذين)(الایة).اسی طرح ظاہری فرق کیلیے حکم دیا مرد کو کہ وہ ڈاڑھی رکھکر اپنامردانہ امتیاز برقرار رکھے اور عورت ظاہری حالت میں پردہ وحجاب سے باہر نکلکر اپنی عزت و آبرو کو بے آبرو نہ کرے۔
جب اسی مسٔلہ کو عقل کے ترازو میں تولتے ہیں تو میزان عقل بھی یہ کہنے پر مجبور ہوجاتی ہے کہ ڈاڑھی رکھنا عین مردانگی کے شایان شان اور ایک لابدی فطری امر ہے جبکہ اسکے خلاف میں مردانگی کی شان گھٹکر زمرہ عورت میں آکر خلط ملط ہوجاتی ہے جو عقل و دانش سے بھی نیز طبع بشری سے کئی میل دور جاگرتی ھے۔
کیونکہ پورے اعضاے انسانی مردانی کا جائزہ لیا جاے تو عیاں طور پر ایک بات سمجھ آتی ھے کہ اللہ سبحانہ وتعالی نےجسم جس حصہ میں بھی بالوں کےاگنے کا سسٹم بنارکھا ھے تو باریک بینی اور دور اندیشی سے ہم غورکریں کہ ایسے کچھ خاص خاص مقامات ہیں جیسے سر،ہونٹوں کے اوپر،رخسار کے اردگرد اور ٹھوڑی پر،زیرناف،ہاتھ پیر،اور سینہ پر یہ ہیں وہ جگہیں جہاں عموما بال آتے ہیں،لیکن ہر جگہ کے نمو کی کیفیت اور کمیت میں فرق ہے،یعنی کہیں تو بال کم مدت میں زیادہ آجاتے ہیں،کہیں لمبی مدت میں کم آتے ہیں،کہیں برسوں کے بعد بھی یاتو اضافہ ہی نہیں ہوتا یا معمولی سا ہوتا ھے، مثلا سر کے بالوں کو لیجیے اگر تین چار ماہ چھوڑدیے جاییں تو زلفیں ہوجاتیں ہیں الاماشاء اللہ اور مونچھوں کے بال ہفتے میں ہی ہفتے دو ہفتے میں ہی خاصے بڑے ہوجاتے ہیں اگر ایک دو ماہ چھوڑدیں تو پانی وغیرہ میں پیتے وقت تیرتی نظر آتی ہے،ہاتھ اور پیر کے بال سالوں سال میں بھی معتدد بہ مقدار میں نہیں بڑھتے،ڈاڑھی کے بالوں کا بھی یہی حال ھے انکے نمو کی رفتار کم ہے،جب اتنا سمجھ لیا تو اب آگے اصل مدعے پر آیے کہ در حقیقت شریعت نے ڈاڑھی بڑھانے کاواجبی حکم کیوں کیا؟
جوابا عرض ہے کہ اسکے بہت سے فواید بھی ہیں
١)جو شخص ڈاڑھی نہیں رکھتا اور کاٹنے مونڈنے یا کٹوانے مونڈوانے کی عادت بنالی ھے،تو ایسا شخص اگر کٹواتا ہے یا مونڈواتا ھے تو اسکے خرچہ سے اولا بچجاےگا،اور اگر خود ہی کاٹتا یا مونڈتا ھے تو خاصا وقت بچجاےگا جو اس بیکار کام میں صرف کرتا ھوگا۔
٢) ایسا شخص ماقبل مذکور حدیث کی وعید میں شامل ھوگا اور اگر رکھ چھوڑے گا تو متبع سنت کہلاےگا۔
٣) ایساشخص اپنی اس سنت کی وجہ سے باوقار شمار ھوگا۔
٤) جو شخص کاٹنے مونڈنے کا شکار ہے وہ ایک غیر فطری امر میں مشغول ھے،جسمیں خسارہ کے سوا کچھ نہیں۔
٥) جسطرح سر کے بال عورت کیلیے زینت ھے مرد کیلیے ڈاڑھی کے بال زینت شمار کیے گیے ہیں،گویا ترک زینت کا مرتکب ھے۔واللہ الموفق۔