Skip links

وقت ایک قیمتی سرمایہ

از: مفتی محمّد کفیل احمد

ڈائیریکٹر اسلامک ھب

وقت کی اہمیت ہر دور میں انسانوں کے لیے اہم رہی ہے، اور اس کی حقیقت کو سمجھنا ہر فرد کے لیے ضروری ہے۔ وقت ایک ایسا سرمایہ ہے جو کسی بھی صورت واپس نہیں آتا، اور اس کی قدر نہ کرنا انسان کی بد قسمتی اور غفلت کو ظاہر کرتا ہے۔ ہم میں سے ہر شخص زندگی میں اپنی اپنی منزل کی تلاش میں ہے، لیکن اس میں کامیاب وہی ہوتا ہے جو وقت کی قدر کرنا جانتا ہے۔

دنیا میں ہر شخص کے پاس ایک ہی طرح کا وقت ہے، وہ 24 گھنٹے کا دن اور رات جو ہر شخص کو ایک جیسا ملتا ہے۔ اگرچہ ہم میں سے کسی کو زیادہ وقت نہیں ملتا، لیکن جو وقت ہمیں ملتا ہے، وہ ہمیں اپنی زندگی کے مقاصد اور منزل کی جانب سفر کرنے کے لیے درکار ہوتا ہے۔ اگر ہم اس قیمتی وقت کی قدر کریں اور اسے اپنے مقصد کے حصول میں استعمال کریں، تو ہم زندگی میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔

اگر ہم اس بات کو سمجھیں کہ وقت کا کوئی بھی لمحہ واپس نہیں آتا، تو ہماری سوچ میں بھی تبدیلی آ سکتی ہے۔ امام رازی رحمہ اللہ نے سورہ عصر کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ وقت کو ضائع کرنا ایک بہت بڑی محرومی ہے، اور جو لوگ اس کی قدر نہیں کرتے، وہ اپنی زندگی کے قیمتی لمحے ضائع کر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں وقت کی اہمیت کا تذکرہ کیا گیا ہے اور اس کا ذکر مختلف آیات میں کیا گیا ہے، جیسے کہ سورہ عصر میں، “زمانے کی قسم، بے شک انسان خسارے میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور اچھے عمل کیے۔”

اگر ہم زندگی کے ہر دن کو اپنے آخری دن کے طور پر گزاریں اور ہر لمحے کو اللہ کی رضا کی خاطر گزاریں، تو اس سے نہ صرف ہمارے عمل میں برکت آئے گی، بلکہ ہمیں اپنی منزل تک پہنچنے میں بھی آسانی ہوگی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی دعا “اے اللہ! میرے لئے وقت میں برکت ڈال دے اور مجھے اس وقت کو صحیح طریقے سے استعمال کرنے کی توفیق دے” ایک اہم سبق دیتی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول ہمیں وقت کی اہمیت اور اس کو صحیح طریقے سے استعمال کرنے کی اہمیت کی طرف راغب کرتا ہے۔

ہم میں سے بہت سے لوگ وقت کی کمی کا شکوہ کرتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمیں اپنے وقت کو صحیح طریقے سے استعمال کرنے کا طریقہ آنا چاہیے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، “حساب کتاب کرنے سے پہلے خود کا حساب کتاب کرو”۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ہمیں اپنے عمل کا محاسبہ کرنا چاہیے اور اس وقت کا حساب دینا چاہیے جو ہمیں دیا گیا ہے۔

وقت کی قدر کرنے کے حوالے سے ایک بہت خوبصورت واقعہ ہمیں ایک باپ اور بیٹے کے درمیان ملتا ہے۔ ایک دن باپ نے اپنے بیٹے کو دنیا کے ایک نقشے کو جوڑنے کی ایک مشکل مہم سونپی، اور بیٹا کچھ ہی دیر میں اس نقشے کو صحیح طریقے سے جوڑ کر واپس لے آیا۔ باپ نے حیرانی سے پوچھا کہ تم نے یہ کیسے کیا؟ تو بیٹے نے جواب دیا کہ نقشے میں ایک انسان کی تصویر تھی، اور جب میں نے انسان کی تصویر کو درست کیا تو پورا نقشہ خود بخود درست ہو گیا۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ اگر انسان خود کو درست کر لے، تو دنیا کی تمام مشکلات اور مسائل بھی درست ہو جاتے ہیں۔ وقت کا صحیح استعمال بھی اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنی زندگی کو درست کریں اور اسے صحیح راستے پر گامزن کریں۔

اگر ہم وقت کو ضائع کرنے کی عادت ڈال لیں، تو ہم دراصل اپنے مستقبل کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ جیسے کہ ایک شخص جو درخت کو اکھاڑنے کا ارادہ رکھتا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ وہ اگلے سال اس درخت کو اکھاڑ لے گا جب وہ کمزور ہو جائے گا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ اپنی طاقت کے وقت میں بھی درخت کو اکھاڑ نہیں پاتا، تو کمزوری کے وقت میں وہ کیسے کامیاب ہو سکے گا؟ اس کی مثال ہمیں بتاتی ہے کہ وقت کو ضائع کرنا ایک بہت بڑی غلطی ہے اور اگر ہم اسے وقت پر استعمال نہ کریں تو ہمیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

مغربی مفکرین بھی وقت کی اہمیت کو بخوبی سمجھتے تھے اور اپنے اقوال کے ذریعے اس کی قدر کا شعور دلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان اقوال کو سمجھ کر ہم وقت کی اہمیت کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔

 ١) بنجمن فرینکلن نے کہا تھا

“وقت وہ دولت ہے جسے ہم سب کے پاس برابر مقدار میں موجود ہے، لیکن اس کا صحیح استعمال ہی اس کو قیمتی بناتا ہے۔”

ان کا یہ قول ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ وقت کی قیمت اسی میں ہے کہ ہم اسے کس طرح استعمال کرتے ہیں۔

٢) مارک ٹوین کا قول ہے

“ہم وقت کو ضائع کر کے اس کے قیمتی لمحوں کو ضائع کر دیتے ہیں، اور پھر ہمیں پچھتاوا ہوتا ہے کہ وقت واپس نہیں آ سکتا۔”

مارک ٹوین کا یہ قول وقت کے ضیاع کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔

٣) کارل لوجی نے کہا

“دنیا کا سب سے قیمتی سرمایہ وقت ہے، کیونکہ یہ کبھی واپس نہیں آتا۔”

کارل لوجی کا یہ قول ہمیں یاد دلاتا ہے کہ وقت کبھی واپس نہیں آتا، اس لیے ہمیں اس کا استعمال درست طریقے سے کرنا چاہیے۔

٤) سینٹ آگسٹائن نے کہا

“وقت کا کوئی آغاز نہیں ہوتا، اور نہ ہی اس کا کوئی اختتام ہوتا ہے، لیکن ہم اس کا استعمال جو کرتے ہیں وہ ہماری زندگی کا مقصد بن جاتا ہے۔”

سینٹ آگسٹائن کا یہ قول وقت کے مفہوم کو سمجھاتا ہے اور اس کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔

اسلامی تاریخ میں وقت کی قدر کے بے شمار مثالی واقعات ملتے ہیں جنہوں نے وقت کے صحیح استعمال کو ثابت کیا۔ ان میں سب سے اہم واقعہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی زندگی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا وقت کا حساب کتاب کرنے کا انداز ہر مسلمان کے لیے ایک رہنمائی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی زندگی میں کبھی بھی وقت کو ضائع نہیں ہونے دیتے تھے۔ آپ کا یہ معمول تھا کہ دن کے آخر میں اپنے کاموں کا محاسبہ کرتے اور یہ دیکھتے کہ کہاں وقت ضائع ہوا۔ آپ کی یہی عادت اور وقت کی قدر کرنے کا طریقہ ہی آپ کو کامیاب بنانے کا باعث بنی۔

امام شافعی رحمہ اللہ کا ایک مشہور واقعہ ہے جس میں انہوں نے اپنی زندگی کے قیمتی وقت کو علم حاصل کرنے کے لیے وقف کیا۔ امام شافعی رحمہ اللہ کی یادداشت اور علم کی تیز رفتاری کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ وقت کی قدر کرتے ہوئے ہمیشہ اپنے علم میں اضافہ کرتے رہتے تھے۔ ایک مرتبہ امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا: “میں نے کبھی بھی علم کا وقت ضائع نہیں کیا، اور جو وقت ضائع کیا وہ میری زندگی کا سب سے بڑا افسوس ہے۔” اس سے واضح ہوتا ہے کہ وقت کی قدر اور اس کا صحیح استعمال انسان کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔

وقت ایک ایسا قیمتی سرمایہ ہے جسے ہم نے اللہ کی رضا کے لیے استعمال کرنا ہے۔ جو شخص وقت کی قدر کرتا ہے، وہ اپنی زندگی میں کامیاب ہوتا ہے۔ وقت کو ضائع نہ کرنا اور اسے اپنی منزل کے حصول کے لیے درست طریقے سے استعمال کرنا ہر انسان کے لیے ضروری ہے۔ جیسے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، “حساب سے پہلے اپنے آپ کا حساب کرو”، ہمیں اپنے وقت کا حساب کتاب کرنا چاہیے اور اس کا صحیح استعمال کر کے اپنی زندگی کو کامیاب بنانا چاہیے۔

Leave a comment

Translate »
× How can I help you?