Skip links

نماز میں خشوع و خضوع

 

(از : محمد اشرف رفیق (ایم،پی

 

آجکا مسلمان جو در حقیقت اپنے ہی کیریکٹر و کردار کی وجہ سے ہر طرف زخم کھاتا دھتکارا ہوا نظر آرہا ھے در در کی ٹھوکریں کھارہا ھے، کیا وجہ آخر ایک وقت وہ تھا کہ اسکے دشمن اسکا نام سنتے ہی میدان چھوڑ کر بھاگ جاتے تھے، انکی ہوا نکل جایا کرتی تھی، ایک ایک مرد مجاہد سپہ سالار ایسی طاقت و قوت کا حامل تھا کہ کئی ایک کے جھرمٹ میں گھس کر اسکے چھکے چھڑا دیتا تھا، اور فریق مخالف یہ کہنا پر مجبور ہوجاتا کہ یہ اس دنیا سے ماوراء دوسری مخلوق لگتی ھے، کچھ تو وجہ تھی کہ ان میں اس قدر جرات و بہادری عزم و ولولہ جوش و خروش کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔
تو آئیے کلام پاک اس بارے میں کیا کہتا ھے، پوچھتے ہیں، تو جواب ملتاہے والذین‌ آمنوا معہ اشداء علی الکفار رحماء بینہم تراہم ركعا سجدا يبتغون فضلا من الله ورضوانا(الآية)ترجمة : اور ايمان والے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ہیں انکا حال یہ ہے کہ کفار پر سخت ہیں اور آپس میں ایک دوسرے پر مہربان ھیں تو انہیں دیکھےگا رکوع اور سجدہ کی حالت میں کہ تلاش کررہے ھیں اللہ کی رضا اور خوشنودی کو۔
اس آیت شریفہ میں مومنین کی یہ صفت بیان کی کہ غیروں پر بڑے سخت مزاج ہیں اور اپنوں پر پھول کی طرح نرم ہیں اسکے بعد کہا کہ وہ رکوع اور سجدہ بھی کرتے ہیں جس سے انکا مطلوب رضاء الہی ھوا کرتا ھے۔ پتہ چلا کہ ان دو صفتوں میں جو پہلے مذکور ھوئیں نماز کی کیفیت میں خشوع و خضوع کا بہت خاص دخل ھے کیوں رکوع اور سجدہ کی حالت نماز ہی میں کیجاتی ھے۔
جی ہاں! نماز میں وہ تاثیر و طاقت ھے جس سے ایک مسلمان میں شان بےنیازی، استغناء عن الناس کا ملکہ پیداہوتا ھے، خود اعتمادی کی کرنیں سینہ پر چھاجاتی ھیں، بے اعتمادی دور ہوتی ھے، بزدلی سے چھٹکارا ملتا ھے، تعلق مع اللہ پیداہوتا ھے، توکل علی اللہ راسخ ہوجاتا ھے، اسی لیے تو کہتے ھیں کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت وہ جماعت تھی جو دورکعت نماز پڑھکر اپنے مسائل حل کروالیا کرتے تھے، اسلیے کہ جسکا خود خدا ہوجائے اسے غیر کے پاس جانے کی کیا ضرورت۔ اسی لیے جابجا نماز میں خشوع کی ترغیبی آیات کا ذکر بار بار کیا گیا ھے، الذین هم في صلاتهم خاشعون،(الآية)
لیکن آجکا مسلمان سب سے تعلقات جوڑ کر اللہ جو غنی اور بے نیازی کی شان رکھتا ھے اس سے کٹ گیا غیروں کے آگے سر جھکا رھا ھے، غیروں سے امیدیں لگا رہا ھے منتیں مانگرہا ھے، جبینیں کررہا ھے،ولاکن چہ فائدہ دارد،دریں فائدہ نیست۔
جبکہ اسلام پسند شخص وہ ھے جسکی پردگار خود تعریف کرے، اللہ فرماتا ہے: وعباد الرحمن الذين يمشون على الأرض هونا واذا خاطبهم الجاهلون قالوا سلاما والذين يبيتون لربهم سجدا وقياما.(الآية)اختصار كے پیش نظر صرف ترجمہ پر اکتفاء کرتا ھوں۔اور رحمان کے بندے وہ ھیں جو زمین پر ہلکے قدم سے چلتے ھیں، اور جب ان سے بے خبر لوگ مخاطب ہوتے ھیں تو انھیں سلام کہتے گزر جاتے ہیں، اور جو اپنے رب کے سامنے رکوع و سجود کی حالت میں شب باشی کرتے ہیں، اور جنکی دعاء یہ ھوتی ھے کہ اے ہمارے رب! ہم سے جہنم کے عذاب کو پھیر دیجیے۔ دوسری جگہ فرمایا: الذین ینفقون فی السراء والضراء والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس (الایة)ترجمة : جو خوشي أو تنگی میں خرچ کرتے ہیں، اور غصہ کو پی جاتے ہیں،اور لوگوں سے درگزر کرتے ھیں، اور اللہ نیکو کاروں کو پسند فرماتا ھے۔
یہ ھیں وہ رحمانی صفات جنکی رب کریم نے ثناء خوانی کی اور انکی مدح میں رطب اللسان ھوۓ، آج ضرورت ہے کہ ہم ستودہ صفات شخص بننے کی کوشش کریں، اپنی تہذیب و تمدن کو سنواریں، اپنی عادات و خصائل کو طریقہ نبوی میں ڈھالیں،اور قرآن و سنت کی لگام کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ و اللہ الموفق

Leave a comment

Translate »
× How can I help you?