Skip links

میں ہوں شہر حیدرآباد

از: مولانا مجیب الرحمٰن تمیم حیدرآباد                  ۔       

حیدرآباد سننے، دیکھنے، آنے اور جانے والوں کیلئے تو بس بھارت کے جغرافیہ کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے لیکن اس کی تاسیس، تاریخ، تہذیب، دربار وکاروبار اور سلطنت ومملکت پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ حیدرآباد اقلیم دکن کا وہ عظیم رقبہ ہے جو ریاست کے مسلمانوں پر خدا کا عظیم احسان ہے، اپنے ہر باشندہ کیلئے لطف ورحمت کا سائبان ہے، برصغیر کا خطہ جنت نشاں ہے، آج بھی گولکنڈہ کی پرسکون پہاڑی چوٹیوں سے لے کر پرانے شہر کی پرہجوم عوامی گلیاروں تک بکھرا ہوا ملی محبت کا جذبہ عالی شان ہے، ہندو مسلم کی جان اور مسلم حکمرانوں کی آن بان اور شان ہے

۔۔۔۔۔۔شادباد حیدرآباد فرخندہ بنیاد۔۔۔۔

سات سو سالہ عظیم اسلامی مملکت اور چار سو تیس سالہ تاریخی، متمدن شہر حیدرآباد کے تہذیب اور تخریب کی داستاں اسی کی زبانی سنئے                    ۔

میں وہ حیدرآباد شہر ہوں جس کی بنیاد آج سے چارسو تیس سال قبل مملکت دکن کے قطب شاہی سلطنت کے پانچویں فرماں روا محمد قلی قطب شاہ نے ۱۵۹۱ میں رکھی                                                                 ۔

میں وہ حیدرآباد شہر ہوں جس پر بہمنی سلطنت، مغل سلطنت، قطب شاہی سلطنت اور آصف جاہی سلطنت کے مسلم حکمرانوں نے تقریبا سات سو سال تک تخت نشینی کی۔

میں وہ حیدرآباد شہر ہوں جس کی داغ بیل اور بنیادی ترقی قطب شاہی سلطنت کی دین اور ترقی وثروت کی بلندیوں کا سہرا آصف جاہی حکمرانوں کے سر ہے،

میں وہ حیدرآباد شہر ہوں جو بر صغیر کی پانچ سو چھپن نوابی ریاستوں میں سب سے امیر ترین اور سب سے زیادہ ترقی یافتہ تھی

میں وہ حیدرآباد شہر ہوں جہاں ہندومسلم یکجہتی اور مختلف تہذیبوب کا سنگ میل تھا

میں وہ حیدرآباد شہر ہوں جس کے سقوط کے وقت ترکی پاکستان، سعودی عرب، مصر، ایران اور افغانستان سمیت کوئی اسلامی ملک دولت وتعلیم اور ترقی وجدت میں اس کے برابر نہ تھا

میں وہ حیدرآباد شہر ہوں جہاں سب سے پہلے اردو زبان کی پرورش و پرداخت ہوئی

میں وہ حیدرآباد شہر ہوں جہاں اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر قلی قطب شاہ اور پہلے نثر نگار ملا وجہی پیداہوئے

میں وہ حیدرآباد شہر ہوں جہاں ولی دکنی پیدا ہوئے جو نہ صرف اردو کے سب سے بڑے شاعر تھے بلکہ ان کا دیوان جب دہلی پہونچا تو وہاں کے ادبی حلقوں میں ہلچل مچ گئی کہ شاعری ایسی بھی ہوسکتی ہے

میں وہ حیدرآباد شہر ہوں جہاں فرہنگ آصفیہ جیسی اردو کی اہم ترین لغت لکھی گئی

میں وہ حیدرآباد شہر ہوں کہ شاعر مشرق خود علامہ اقبال یہاں چیف جسٹس بننے کے متمنی تھے

میں وہ حیدرآباد شہر ہوں جہاں کے بادشاہ علی عادل شاہ نے سب سے پہلے اردو کو سرکاری زبان قرار دیا

میں وہ حیدرآباد شہر ہوں جہاں میر تقی میر، مرزا سودا، میر درد، میر حسن مصحفی، شاہ حاتم، سراج اورنگ آبادی اور مرزا مظہر جیسے بیسیوں بے مثال شاعروں کی کھیپ تیار ہوئی

میں وہ حیدرآباد شہر ہوں جہاں انگریزوں کے تسلط کے بعد بھی اردو کی ترویج واشاعت اور شعراء وادباء کی پذیرائی خوب رہی

میں وہ حیدرآباد شہر ہوں جس نےرتن ناتھ سرشاتھ، عبد الحلیم شرر، شبلی نعمانی، ابو الاعلی مودودی، ڈاکٹر حمید اللہ، مترجم قرآن مارما ڈیوک پتھال جیسے مشاہیر کی سرپرستی کی

میں وہ حیدرآباد شہر ہوں جس کی مملکت کا رقبہ موجودہ اسکاٹ لینڈ اور انگلینڈ کے خطہ سے بڑا تھا

میں وہ حیدرآباد شہر ہوں جس کی آبادی موجودہ ترکی، اٹلی اور برطانیہ سے زیادہ تھی

میں وہ حیدرآباد شہر ہوں جس کے آخری بادشاہ نواب عثمان علی خان(نظام حیدرآباد) دنیا کے امیر ترین شخص تھے، جن کی دولت کا تخمینہ تقریبا ۲۵۰ ارب امریکی ڈالر لگایا جاتاہے

میں ہی وہ حیدرآباد شہر ہوں جس نے حرمین شریفین کی دل وجان سے خدمت کی، پانی اور بجلی کے انتظام کا شرف حاصل کیا

میں وہ حیدرآباد شہر ہوں جس نے دونوں مقدس مقامات پر زائرین کیلئے رباط قائم کیا

میں وہ حیدرآباد شہر ہوں جس نے ملک بھر کے مدارس کی سرپرستی، علماء کی قدردانی، ماہرین فن کی کفالت، اردو ادیبوں، شاعروں کی حوصلہ افزائی میں کبھی پس قدمی نہیں کی

میں وہ حیدرآباد شہر ہوں جس نے دائرة المعارف العثمانیہ جیسے تحقیقی ادارے کی داغ بیل ڈالی

میں وہ حیدرآباد شہر ہوں جس نے جامعہ عثمانیہ، جامعہ نظامیہ جیسے شاندار تعلیمی درسگاہیں قائم کیں

میں وہ حیدرآباد شہر ہوں جس نے دار الترجمہ قائم کرکے تقریبا ہر فن کے چارسو سے زائد کتب کا اردو زبان میں ترجمہ کیا

میں وہ حیدرآباد شہر ہوں جس نے جدید اسپتالوں کی تعمیر اور تعلیمی اداروں کے قیام جیسے رفاہی کاموں میں خوب کام کیا

میں وہ حیدرآباد شہر ہوں جہاں ہندوستان کی وہ واحد عثمانیہ یونیورسٹی تھی جس میں ڈاکٹری اور انجینیرئینگ کی تعلیم بھی اردو زبان میں دی جاتی تھی

میں وہ حیدرآباد شہر ہوں جس میں دو بڑے دریا آٹھ معاون دریاؤوں کیساتھ بہتی ہیں،

میں وہ حیدرآباد شہر ہوں جو پورے ہندوستان میں قیمتی کانیں، خزانے، اناج، کپاس پندرہ فیصد اور چالیس فیصد روغنی اجناس پیدا کرتی تھی

میں وہ حیدرآباد شہر ہوں جہاں خود کی کاغذ سازی، پارچہ بافی، شکر سازی، سمینٹ کے کارخانے اور گھریلو صنعتیں سب خود کی موجود تھیں

میں وہ حیدرآباد شہر ہوں جس میں اپنی کرنسی، ٹیلی گراف، فون، ڈاک کا نظام، ہوائی اڈے، ریلوے لائینیں، تعلیمی ادارے اور ہسپتال سب اپنے موجود تھے

میں وہ حیدرآباد شہر ہوں جو دہلی کے زوال کے بعد بر صغیر میں مسلم ثقافت کا سب سے بڑا مرکز اور مسلمانوں کی آماجگاہ بن چکا تھا

میں وہ حیدرآباد شہر ہوں جسے آزادئ ہند کے بعد ہندوپاک کیساتھ الحاق یا آزاد رہنے کا اختیار دیا گیا

میں وہ حیدرآباد شہر ہوں جس نے مذہب کے نام پر کسی ملک میں شامل ہونے سے انکار کرکے خود مختار رہنے کا فیصلہ کیا

میں وہ حیدرآباد شہر ہوں جس میں اتحاد المسلمین نامی تنظیم قائم ہوئی جس کے صدر نواب بہادر یار جنگ جیسے ملی حمیت وسیاسی بصیرت کے مالک تھے لیکن اندوہناک طور پر شہید کردیے گئے

میں وہ حیدرآباد شہر ہوں جس نے اتحاد المسلمین کے رکن قاسم رضوی کی شعلہ بیانی سنی ان کے سچے جذبات اور جذبات کے منفی اثرات دیکھے

میں وہ حیدرآباد شہر ہوں جس نے اپنی حکومت کی بربادی میں اپنے ہی ایک فوجی کمانڈر العید روس کی غداری اور اس کی یہودی بیوی کی مکاری دیکھی

میں وہ حیدرآباد شہر ہوں جس پر خود مختار رہنے کی پاداش میں انڈین یونین کے سربراہوں نے ۱۹۴۸ بھارت کی بحری وبری فوج کو لے کر چاروں طرف سے حملہ بولا

میں وہ حیدرآباد شہر ہوں جس کی خود مختار مملکت ختم کرکے بھارت میں ضم کرنے کیلئے میری نگاہوں کے سامنے لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا، ہزاروں خواتین کی عصمت دری کی گئی، کئی پاکباز خواتین نے اپنی عفتوں کے تحفظ کیلئے خود ہی موت کی آغوش میں پناہ لی

میں وہ حیدرآباد شہر ہوں جس کے دامن میں پولیس ایکشن کے نام پر قتل وخون کا ننگا ناچ کیا گیا

میں وہ حیدرآباد شہر ہوں جس کے سقوط کے بعد سرحدی علاقوں کا کوئی کھیت اور کنواں ایسا نہ تھا جو مسلمان مرد وعورت کی نعشوں اور خون میں لت پت دھڑوں سے بھرا نہ ہو

میں وہ حیدرآباد شہر ہوں جس میں فوجی ایکشن کے نام پر غیر سرکاری طور پر تقریبا دس لاکھ انسانوں کو تہہ تیغ کیا گیا

میں وہ حیدرآباد شہر ہوں جس میں مسلم طاقت کو بالکل ختم کرنے کیلئے میرے کئی حصے بخرے کردئیے گئے، کرناٹک، بمبئی، آندھرا میں بانٹ کر مجھے الگ شہر کردیا گیا

میں وہ حیدرآباد شہر ہوں جہاں کے ہزاروں باشندوں کو ملک سے ہجرت کرنی پڑی، اربوں کی جائیدادوں پر قبضہ کرکے انہیں بے بس کردیا گیا

میں وہ حیدرآباد شہر ہوں جس کی شاندار عثمانیہ یونیورسٹی کی لائبریری میں موجود اسی ہزار قیمتی اردو کتابوں کو نذر آتش کیا گیا

میں وہ حیدرآباد شہر ہوں جہاں کے مسلمانوں نے ان سب کے باوجود ترقی کی امنگ وترنگ کیساتھ اپنا وجود بحال کیا اور اپنی تعلیم وٹکنالوجی، صنعت وحرفت، ہندومسلم رواداری، اردو کے تحفظ وفروغ، سیاسی کردار کیساتھ سرفہرست ترقی یافتہ شہر بن چکاہے

میں وہ حیدرآباد شہر ہوں جہاں چارمینار، گولکنڈہ، مکہ مسجد، سالارجنگ میوزیم، فلک نما، سات گنبد، کنگ کوٹھی، چومحلہ پیالیس، جیسے پر شکوہ عمارتیں آج بھی اس کی عظمت رفتہ کے گواہ ہیں

میں وہ حیدرآباد شہر ہوں جہاں کے باشندوں میں آج تک بھی پیار ومحبت، جرات وہمت کے وہ جذبات ہیں جو آج بھی یہاں اسلامی اقدار اور مسلم روایات کے پاسدار ہیں۔

 

یہ ہے حیدرآباد اور شہر حیدرآباد کا اجمالی تعارف، تفصیلی احوال کیلئے تاریخی کتب ہی مراجع ہیں۔

 

Leave a comment

Translate »
× How can I help you?