Skip links

عورت کے لیے مسجد افضل ہےیا گھر؟

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

از قلم: مفتی محمد کفیل احمد

ڈایریکٹر اسلامک ہب

    دین اسلام ایک عالمی، امن پسند مذہب ہے، جس میں کائنات میں موجود ہر چیز کو اس کا مکمل حق دیا گیا ہے، اگر حق تلفی کہیں نظر آئی ہے تو تاریخ شاہد ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات کی کمزوری نہیں بلکہ مسلمانوں کی عملی کوتاہی تھی، اس گہرائی و اعتدال کی وجہ یہ ہے کہ اللہ نے مزاج انسانی کے حساب سے ایک بہترین شریعت بھیجی ہے جس کی مکمل تبلیغ بغیر کسی کمی کے رسول اللہ نے کردی ہے۔ پھر اللہ نے قرآن کو اور رسول کے ہر ادا کو شریعت قرار دیا۔ فرمان باری ہے: مَاۤ ءَاتَىٰكُمُ ٱلرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَىٰكُمۡ عَنۡهُ فَٱنتَهُوا۟ ) الحشر ٧ ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شریعت کی تعلیمات اس کے ظاہر و باطن کے ساتھ، عمل اور مقصدِ عمل کے ساتھ صحابہ کو سکھائے۔ حضرات صحابہ نے علم و عمل، مزاج و مذاق ہر اعتبار سے دین اسلام کو اپنے اندر سمو لیا یہاں تک کہ خود اللہ کی طرف سے ان کی اور ان کے تابعین کی صداقت و امانت اور اللہ کے محبوب ہونے کی گواہی آئی۔ وَٱلسَّـٰبِقُونَ ٱلۡأَوَّلُونَ مِنَ ٱلۡمُهَـٰجِرِینَ وَٱلۡأَنصَارِ وَٱلَّذِینَ ٱتَّبَعُوهُم بِإِحۡسَـٰنࣲ رَّضِیَ ٱللَّهُ عَنۡهُمۡ وَرَضُوا۟ عَنۡهُ وَأَعَدَّ لَهُمۡ جَنَّـٰتࣲ تَجۡرِی تَحۡتَهَا ٱلۡأَنۡهَـٰرُ خَـٰلِدِینَ فِیهَاۤ أَبَدࣰاۚ ذَ ٰ⁠لِكَ ٱلۡفَوۡزُ ٱلۡعَظِیمُ ) التوبة ١٠٠ ( اور اللہ نے ساری امت کو صحابہ کے راستے پر چلنے کا حکم دیا ہے: وَمَن یُشَاقِقِ ٱلرَّسُولَ مِنۢ بَعۡدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُ ٱلۡهُدَىٰ وَیَتَّبِعۡ غَیۡرَ سَبِیلِ ٱلۡمُؤۡمِنِینَ نُوَلِّهِۦ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصۡلِهِۦ جَهَنَّمَۖ وَسَاۤءَتۡ مَصِیرًا. ) النساء ١١٥ ( نتیجہ یہ ہوا کہ قرآن و حدیث حجت شرعیہ ہے اور صحابہ اس کے علمی و عملی تصویر ہے چنانچہ قران و حدیث کا فہم صحابہ کی تعلیمات سے الگ ہوکر سمجھنا جائز نہیں ہے، ورنہ وہ غیر سبیل المومنین میں داخل ہو کر گمراہی کا راستہ مانا جائے گا۔

    اتنی بڑی تمہید کو لکھنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ قرآن و حدیث پر عمل صحابہ وتابعین کے طریقے کے بغیر قبول نہیں ہے۔ اس مقدمہ کو جب سمجھ لیا گیا، تو ہم اپنا دوسرا مقدمہ پیش کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول کے زمانے میں جو کہ خیر القرون ہے رات کی نمازوں میں عورتوں کو شوہروں کی اجازت سے سنگار کے بغیر پراگندہ حالت میں مسجد جانے کی اجازت اقتداءِ رسول کی برکت حاصل کرنے کے لیے تھی۔ اور خود رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ان کے نہ آنے کو پسند کرتے تھے اسی لیے آپ نے فرمایا: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ” صَلَاةُ الْمَرْأَةِ فِي بَيْتِهَا أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِهَا فِي حُجْرَتِهَا، وَصَلَاتُهَا فِي مَخْدَعِهَا أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِهَا فِي بَيْتِهَا “. (ابو داؤد ٥٧٠ ( اور ام حمید ساعدی نے رسول سے ان کی مسجد میں نماز کی خواہش ظاہر کی تو رسول نے فرمایا: ” قَدْ عَلِمْتُ أَنَّكِ تُحِبِّينَ الصَّلَاةَ مَعِي، وَصَلَاتُكِ فِي بَيْتِكِ خَيْرٌ لَكِ مِنْ صَلَاتِكِ فِي حُجْرَتِكِ، وَصَلَاتُكِ فِي حُجْرَتِكِ خَيْرٌ مِنْ صَلَاتِكِ فِي دَارِكِ، وَصَلَاتُكِ فِي دَارِكِ خَيْرٌ لَكِ مِنْ صَلَاتِكِ فِي مَسْجِدِ قَوْمِكِ، وَصَلَاتُكِ فِي مَسْجِدِ قَوْمِكِ خَيْرٌ لَكِ مِنْ صَلَاتِكِ فِي مَسْجِدِي ” (مسند احمد ٢٧٠٩٠ ( اس حکم کی تکمیل میں ام حمید ساعدی نے ایک اندھیرا کمرہ بنا لیا اپنے گھر میں اور وہ موت تک اسی میں نماز ادا کرتی تھیں۔ تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ کو عورتوں کا مسجد آنا پسند نہیں تھا۔ اور مزاج شریعت کا بھی یہی تقاضا ہے کہ عورتیں گھر میں رہیں اور اپنی عبادتیں، نمازیں گھر میں ادا کریں۔ وَقَرۡنَ فِی بُیُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجۡنَ تَبَرُّجَ ٱلۡجَـٰهِلِیَّةِ ٱلۡأُولَىٰۖ وَأَقِمۡنَ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتِینَ ٱلزَّكَوٰةَ وَأَطِعۡنَ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥۤۚ إِنَّمَا یُرِیدُ ٱللَّهُ لِیُذۡهِبَ عَنكُمُ ٱلرِّجۡسَ أَهۡلَ ٱلۡبَیۡتِ وَیُطَهِّرَكُمۡ تَطۡهِیرࣰا. (أحزاب ٣٣ ( تو شریعت کے اسی مزاج کی بنا پر حضرت عمر (جن کے نظریے کے مطابق قران کریم کے کئی احکام نازل ہوئے اور جنہوں نے رسول اللہ کی طویل صحبت پائی ہے ) نے عورتوں کو مسجد آنے سے منع کیا اور عورتوں کی حضرت عائشہ سے اس بات کی شکایت پر حضرت عائشہ نے بھی حضرت عمر کی تائید فرمائی ہے۔ (بخاری ٨٦٩)لہذا تمام امت کا فریضہ بنتا ہے کہ صحابہ کے اس اجماع پر عمل کواپنے لیے لازم سمجھے، کیونکہ قران و حدیث کو ہم سے زیادہ انہوں نے سمجھا ہے، اسی لیے اللہ نے ان سے اپنی رضا کا اظہار کیا ہے۔ رہا خواتین کی دینی تعلیم تو خود رسول اللہ کے زمانے میں ان کی تعلیم مسجد میں نہیں ہوتی تھی، رسول اللہ نے ان کے لیے ایک گھر میں اجتماع کا دن متعین کر دیا تھا، اور خواتین عام ایام میں رسول اللہ کے ازواج کے ذریعے علمِ دین حاصل کرتی تھیں۔ اسی لیے ہمیں خواتین کی دینی تعلیم کے لئے مستقل نظام بنانا چاہیے، نظام کا نہ بنانا ہماری غلطی ہے، ایسا نہ ہو کہ مسجد میں تعلیم کے بہانے عورتوں کو لاکر”خود تو بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں” کہ ہم مصداق بن جائیں۔

      بعض حضرات ظاہرِ حدیث کو سامنے رکھ کر کہتے ہیں کہ جائز تو ہے نا تو منع کیوں کیا جا رہا ہے؟ تو ان سے یہ عرض ہے کہ یہ جوازِ مبغوض ہے جیسا کہ طلاق باوجودیکہ جائز ہے لیکن مبغوض ہے۔ اور جائز چیز سے جب نقصان ہو رہا ہو تو اس سے بھی منع کیا جاتا ہے جیسے چلنا ایک جائز عمل ہے لیکن جب یہ چلنا چوری کرنے کے ارادے سے ہو تو ناجائز ہو جاتا ہے۔ بعض حضرات بازاروں میں عورتوں کے گھومنے کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں کہ جب بازاروں میں گھوم سکتی ہیں تو مسجد کیوں نہیں آ سکتی ہے؟ تو حقیقت یہ ہے کہ یہ حضرات دین کے اصول سے واقف نہیں ہے کہ قرآن, حدیث اور صحابہ دلیل ہیں، صحابیات سے بازاروں میں گھومنا ثابت نہیں ہے۔ اور صحابہ و اسلاف کا طریقۂ کار چھوڑ کر محض قرآن و حدیث کو اپنی عقل سے سمجھنا مزاج شریعت کے سمجھے بغیر انسان کو گمراہی بلکہ الحاد تک پہنچا دیتا ہے۔

     اس تحریر سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ خواتین کا مسجد میں قدم رکھنا ممنوع ہے، بوقت ضرورت وہ ضرور آ سکتی ہے بلکہ بازار، ریلوے اسٹیشن، بس سٹینڈ وغیرہ کی مساجد میں خواتین کے لیے خصوصی نظام ہونا چاہیے تاکہ ان جگہوں پر وقت ہونے پر خواتین کی نماز نہ چھوٹے۔ آخر میں اپنے دینی بھائیوں اور بہنوں سے گزارش ہے کہ اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور فرمائے۔ کوئی سوال ہو تو ضرور پوچھے.

Leave a comment

Translate »
× How can I help you?