ا
ز اشرف رفیق (ایم،پی)
کسی بھی نعمت و انعام پر شکر و قدردانی اور احسان شناسی آدمی کی قدر و قیمت اور نعمت میں اضافہ کا سبب ھوتا ھے،اسی کو سبحانہ وتعالی نے فرمایا:لئن شکرتم لئزیدنکم ولئن کفرتم ان عذابی لشدید(الآية)ترجمة :اگر تم شکرگزار بنجاوگے تو میں نعمت میں اضافہ کردوںگا اور اگر ناشکرے بنوگے میرا عذاب بڑا سخت ھے۔
یاد رہے کہ شکر لسانی بھی ہوتا ھے اور عملی بھی،مخلوق کا بھی ہوتا ھے اور خالق کا بھی،اور جو مخلوق کا شکر گزار نہیں بن سکتا وہ خالق کا شکر گزار نہیں بن سکتا،حضور علیہ السلام کا ارشاد :من لم یشکر الناس لم يشكر الله (رواه الترمذي).
الله تعالى نے لقمان حکیم کو حکمت عطا کی اور ان کو حکم دیا کہ اللہ کا شکر ادا کرو اور جو شکر گزار ھوتا ھے وہ اپنے فائدہ کیلیے ھوتا ھے اور جو ناشکری کریگا تو اللہ بے نیاز سزاوار حمد ھے،(ولقد اتینا لقمان الحکمة أن أشكر لله ومن يشكر فإنما يشكر لنفسه (الآية) اسی طرح قرآن پاک میں حکم دیا کہ آل داؤد کی طرح شکرکرو،(اعملوا ال داود شكرا).
اپنے محسن کے احسانات کو یاد کرتے ہوۓ اسکی تعریفیں کرنا،اسکی بات کو مان لینا اور اسکی نافرمانی کرنے سے شرماجانا شکر کہلاتا ھے۔
لسانی شکر! ہمیں چاھیے کہ ہم ہروقت اپنی زبان سے اللہ تعالی کی تعریفیں کریں۔مثال کے طور پر ٹھنڈا پانی پیئیں تو الحمد للہ کہیں،اور گرم روٹی کھائیں تو الحمد للہ کہیں، حدیث پاک میں آیا ھے جس بندے نے کسی نعمت پر الحمد للہ کہدیا گویا اسنے اس نعمت کا شکر ادا کردیا، بیٹے پر نظر پڑے تو الحمد للہ، گھر پر پڑے تو الحمدللہ، دکان پر جاکر بیٹھیں تو الحمد للہ کہیں۔
جسمانی شکر! کوشش یہ کریں کہ زیادہ سے زیادہ اللہ کے حکموں کی فرمانبرداری کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: یا ایھا الذین آمنوا کلوا من الطیبات واعملوا صالحا۔ اے ایمان والو تم پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک نام کرو۔چونکہ ہم اللہ کا دیا ہوا رزق کھاتے ہیں اسی لیے ہمیں چاھیے کہ ہم اسکی عبادت بھی خوب کریں۔
اگر ہم ناشکری کرینگے یعنی اللہ کی تعریفیں بھی نہ کریں اسکے حکموں کو بھی نہ مانیں اور گناہوں سے بھی نہ بچیں تو پھر اللہ رب العزت اپنی نعمتوں کو واپس لے لیں گے۔
قرآن مجید میں قوم سبا کا تذکرہ ھے،مفسرین نے لکھا ہے کہ اس زمانے میں انکے راستے کے دونوں طرف باغات ہوتے تھے۔پھلوں کی اتنی بہتات ہوتی تھی کہ اگر کوئی خالی ٹوکری لیکر باغات میں سے گزرتا تو گرنے والے پھلوں سے اسکی ٹوکری بھرجایا کرتی تھی۔انکے ہاں یہ بھی دستور تھا کہ جہاں سے بھی کوئی پھل توڑنا چاہتا تھا توڑسکتا تھا۔اللہ نے اس قوم سے فرمایا: کلوا من رزق ربکم واشکروا لہ۔میرے بندو! میری دی ھوئی نعمتیں کھاؤ اور میرا شکر ادا کرو، مگر وہ ناشکرے نکلے، کہنے لگے اے اللہ ہر طرف سبزہ ہے باغات ہیں ہم انکو دیکھکر تنگ آگیے ہیں ہم ایک شہر سے دوسرے شہر سفر کرتے ھیں تو پتہ ہی نہیں چلتا کیونکہ ہرطرف درخت ہوتے ہیں۔جب انہوں نے یہ بات کہی تو اللہ تعالی نے زمین کے اندر کے پانی کو خشک کردیا، لہذا سب درخت کے باغات سوکھ گیے اور نتیجة الله کی نعمتوں سے محروم کردیے گیے اور کھانے کو ترسنے لگے۔اللہ فرماتے ہیں :لقد کان لسبا فی مسکنہم آیة جنتان عن يمين وشمال.قوم سبا کے گھروں میں بڑی نشانیاں ہیں وہ جن راستوں پر چلتے تھے انکے دائیں طرف بھی باغ ہوتے تھے اور بائیں طرف بھی۔
لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ کے شکر گذار بندے بنے اور قول و فعل ہر اعتبار سے شکر گزار بندے بنے۔واللہ الموفق