Skip links

رزق حلال پر انسانیت کا مدار

 

از : مولانا محمد اشرف ایم. پی

قال تعالی:وما من دابة في الارض الا على الله رزقها(الآية)،وقال ياايها اللذين امنوا لا تأكلوا الربوا أضعافا مضاعفة (الآية).
معیشت انسانی اور رزق بشری کے اسباب مختلفہ دنیا بھر میں موجود ھیں،جو مختلف شکلوں صورتوں میں پھیلے ھویے ھیں،کمپنیاں، فیکٹرییاں ،تجارت و صنعت،نقل و حمل کے وسائل بری بحری آلات و ذرائع،زراعت و کاشتکاری،محنت مزدوری اسی لیے قائم و دائم ھیں،اور تو آجکل کے پڑھے لکھے طبقے کے لوگوں کی بھی اپنی پڑھائی لکھائی سے مثلا ڈاکٹروں کی ڈاکٹری انجینیروں کی انجینیرنگ پلمبر کی پلمبرنگ سے مقصد اصلی کسب معاش ھی ھے،جی ہاں ! خدمت خلق کا جذبہ بھی کارفرما ھو تب بھی مذکورہ کاموں کرنا خلاف عقل نہیں اور نہ ہی اسمیں کسی قسم کی کوئی قباحت ھے،بلکہ ان راہوں کی آمدنی میں اللہ تعالیٰ نے وسعت و برکت کے وعدے رکھے ھیں بشرطیکہ ان میں بھی ہیرا پھیری نہ ھو لقولہ تعالی:ولا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل(الایة)۔
اب آیے کہ جو فضائل و برکات قرآن حدیث سے رزق حلال کے بارے میں اے ھیں بنسبت اسکے کہ رزق حرام میں ان برکات سے اولا محرومی اور مزید گناہوں اور رحمت خداوندی سے بعد کا بار و بوجھ اختیار کرنے میں وارد ھویے ھیں۔
مذکورہ آیات میں سے ایک آیت میں خود اللہ نے روزی کا ذمہ اپنے سر لیا ھے اور رزق رسانی کا پختہ وعدہ کیا ھے،ان اللہ لایخلف المیعاد۔ لیکن ساتھ ھی ساتھ چونکہ دنیا دار العمل اور دار الاسباب ھے لہذا ھر ایک کے پیچھے خود انسانی عمل کا دخل ھے،اور اسی کے اختیار میں ھے کہ وہ آیا صحیح راستہ پاکر اس پر چل کر کامیابی تک پہنچتا ھے یا غلط راہ پے چل کر ناکامی کو پسند کرتا ھے،چنانچہ عقل و خرد کے حاملین نے درستگی کی لائن کو اپنایا اور فلاح کو پہنچے،اور عقل سے اندھوں نے اسکے خلاف کیا تو پاؤں پر کلہاڑی ماری،پتہ چلا کہ رزق کی جتنی ڈور اللہ کے قبضہ قدرت میں ھے اتنی ھی بندہ کے قبضہ میں ھے،اب اگر اسکو یہ صحیح طریقہ سے کھینچ کر لمبا کرنا چاہتا ھے تو اللہ بھی اسکے منشا کو پورا کرینگے،اور اگر الجھانا چاہتا ھے تو اللہ بھی اسکے ساتھ ایسا ھی کرینگے۔
طبی اعتبار سے اگر بنظر غائر دیکھا جاے اور غور کیا جاے تو صاف طور سے ھم کل کائنات کی مخلوقات کا جائزہ لیں اور پھر دیکھیں کہ انکی بھی سانسیں ھیں انکے پاس بھی اس قسم کے ذرائع ھیں جنہیں استعمال کرنے سے انہیں کامیابی ملتی ھے اور نظام کائنات میں کسی بھی نوع کا خلل نظر نہیں آرہا ھے،اور ہر مخلوق چاہے پھر وہ چرندے ھوں یا درندے،پرندے ھوں یا چوپاے،بری جانور ھوں یا بحری اپنی غذا آپ حاصل کرتے ھیں اور غذا کے انتخاب میں بھی کوئی غلطی نہیں کرتے،کیوںکہ جسکی جو غذا مقرر ھے پرودگار عالم کی جانب سے اسی کو تلاش کرتے ھیں،اور ملنے پر اسے ھی کھاتے برتتے ھیں۔
ھرحیوان کی جو غذا مقرر کی ھوئی ھے بس وہی اسکے معدے کے موافق ھے،چنانچہ ھر جانور اسی کو اپنے استعمال میں لاتا ھے،شیر کو لیجیے اسکا بسیرا شکار کرکے کھانے میں ھے اسی پر اسکی گزر بسر ھے گھاس پھوس اور دانہ وغیرہ لینا اسکے خلاف فطرت ھے،کبوتر کے معدے کی غذا دانہ وغیرہ میں ھے وہ گوشت وغیرہ نہیں لیتا،اسی طرح اور جانوروں کا حال ھے،اسی کے مطابق اللہ نے انسان کی غذا حلال میں رکھی ھے جس سے انسانیت بیدار رہتی ھے اور اسکے خلاف کرنے پر دل مردہ ھوجاتا ھے،احکام الہی کی یاتو اولا توفیق ہی نہیں ملتی یا ملتی ھے تو قبولیت حاصل نہیں ھوتی،اسلیے ضروری ھے کہ جن لوگوں کی آمدنی کے وسائل غلط موڑ پر جارھے ھوں وہ سیدھے موڑ پر کرلیں کہیں زندگی کی یہ گاڑی گہرے غار میں نہ جاگرے۔ان في ذالك لعبرة لاولي الألباب.(الآية)

Leave a comment

Translate »
× How can I help you?