Skip links

خالقِ کائنات کی تلاش

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

از قلم: مفتی محمد کفیل احمد

 ڈایریکٹر اسلامک ہب

 

ہم نے اپنے پچھلے مضمون میں ارتقائی نظریے کے باطل ہونے کو ثابت کیا تھا، اگر اب بھی کسی کو سوال باقی ہے تو islamichubb@gmail.com پر اپنا سوال میل کر سکتے ہیں۔ اگر کوئی سوال نہیں ہے اور آپ کے لیے واضح ہو گیا کہ یہ دنیا خود سے نہیں بنی ہے نہ ہی خود سے چل رہی ہے۔ کوئی ذات ہے جس نے اس کائنات کو بنایا ہے اور چلا رہا ہے تو ہم اپنی بات کو اگے بڑھاتے ہوئے اس خالق اور مدبر کو تلاش کرتے ہیں جس نے اس کائنات کے ذرے ذرے کو پیدا کیا ہے اور چلا رہا ہے۔ 

انسان کی فطرت نے ابتدا ہی سے اپنے سے اوپر کسی طاقت کو مانا ہے جس کا اس دنیا پر قابو ہے۔ وہ شروع ہی سے اپنے عاجزی کو اپنے کمزور ہونے کو محسوس کرتا ہے۔ ہم ابھی اس ذات کو غیبی قوت یا غیبی طاقت سے تعبیر کرتے ہیں۔ انسان نے کبھی اپنے سے جسمانی طور پر طاقتور کو اس غیبی قوت کا درجہ دیا جیسے شیر کو خدا مانا گیا۔ کبھی نقصان یا نفع پہنچانے والے سے خوش ہو کر یا ڈر کر اس کو خدا مان لیا۔ مثلا سانپ یا کوئی درخت یا جانور کو خدا مان لیا گیا۔ کبھی روحانی چیزوں کو اپنی خیالات اور کلپنا کے ذریعے غیبی قوت کا درجہ دیا۔ الغرض انسانیت کی نسلوں نے اس غیبی قوت کے بارے میں اپنے مختلف نظریات پیش کیے اور وہ نظریات اتنے مختلف ہے کہ ایک شخص جو خالی الذہن ہو اس کے لیے حقیقی غیبی قوت کا سمجھنا بہت دشوار ہو جاتا ہے۔ اور ہم یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ان نظریات میں سے کوئی ایک ہی صحیح ہے کیونکہ نظریات میں اتنا تضاد ہے کہ ایک سے زیادہ کو صحیح ماننا دن و رات کے ایک ہونے کے، آگ اور پانی کے ایک ساتھ جمع ہونے کے مرادف ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ غیبی قوت تو موجود ہے لیکن اس کو پہچاننا مشکل ہو گیا ہے۔ ہم اس مشکل کو حل کرتے ہوئے آسان اور موٹے دلیلوں سے ان نظریات میں سے صحیح نظریے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

پہلی بات ہم جس طاقت کو خالق اور اپنے سے اوپر ماننا چاہتے ہیں جس کے حیات بخشنے کی وجہ سے ساری کائنات زندہ ہے۔ تو ایک بات طے ہے کہ وہ طاقت انسان یا اس سے کمتر جنس نہیں ہو سکتی ہے۔ کیونکہ خدا اور معبود تو عابد سے اچھا ہوتا ہے، مخدوم خادم سے بڑا مانا جاتا ہے، لہذا کسی جزوی کمال کی وجہ سے کسی پتھر درخت یا جانور کو معبود ماننا حقیقت میں خود کو ذلیل کرنا ہے، مخدوم و معبود کا خادم و عابد کی پرستش کے مرادف ہے، جو ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ غلط ہے۔خادم؛ مخدوم سے جسمانی طور پر مضبوط ہو سکتا ہے لیکن تب بھی وہ خادم ہی ہے. لہذا شیر کو خدا ماننا، عقلمندی سے سوچے تو غلط ہے، گائے چاہے نفع دیتی ہو لیکن وہ کہانیوں سے ہٹ کر حقیقت میں بہرحال انسان کے مقابلے ناسمجھ ہے۔ ورنہ گائیوں کی جنس بھی انسان ہی کی طرح ترقی کرتی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم خدا کی ذات کو سمجھ نہیں سکتے ہیں۔ خالق کائنات کی ذات انسانی عقل سے ماورا ہے۔ صحیح اور گہری فکر رکھنے والوں نے یہی نتیجہ نکالا ہے کہ ذاتِ خالق کا ادراک ممکن نہیں ہے اس کی شناخت اس کے صفات کے ذریعے ہی کی جا سکتی ہے۔ کیونکہ انسان انہی چیزوں کا تصور کر سکتا ہے جو اس کے عقل کے دائرے میں آتی ہیں، اور خالق کائنات کی ذات انسان کے دائرۂ فکر سے باہر ہے اسی لیے اس کی ذات کا ادراک ناممکن ہے۔

جب اس غیبی قوت کی ذات کا ادراک ناممکن ہو گیا تو دوسری بات یہ ہے کہ وہ کون سی صفات ہیں جن کا خالقِ کائنات میں ہونا ضروری ہے کہ اگر وہ نہ ہوں تو وہ خالق کہلانے کے لائق نہیں ہے۔ 

١) حیات: یعنی خالقِ کائنات ہمیشہ سے ہے ہمیشہ تک رہے گا۔ لہذا جو خود مخلوق ہے وہ خالق نہیں ہو سکتا کیونکہ جو خود ہی مخلوق ہے وہ خالق کیسے ہو سکتا ہے تو وہ معبود بھی نہیں ہو سکتا ہے۔ 

٢) علم: خالق معبود کا ہر چیز کو جاننا ضروری ہے۔ ماضی، حال، مستقبل، ظاہر و باطن کا فرق اس کے لیے نہیں ہونا چاہیے، وہ دلوں کے راز کو جاننے والا ہو۔ اگر کائنات کا ایک ذرہ بھی اس کے علم سے باہر ہے تو وہ خالق و معبود کہلانے کے لائق نہیں ہے۔ کیونکہ بغیر علم کے وہ ہماری مدد نہیں کر سکتا ہے، لہذا اس کی پرستش کیسی؟

٣) قدرت: وہ ایسا قادر ہو کہ محض اس کے ارادہ کرنے سے ہی ہر ممکن العقل چیز وجود میں آجائے۔

تیسری بات یہ ہے کہ یہ صفات ایک ذات میں پائے جاتے ہیں یا ایک سے زیادہ میں پائے جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں بھی انسانیت نے مختلف نظریات پیش کیے ہیں: کسی نے ایک ہی کو سب کچھ مانا ہے، کسی نے تین کو مانا ہے، کسی نے ایک کو اصل مانتے ہوئے دوسروں کو اس کا معاون مانا ہے۔ کسی نے سیدھے سے انگنت خدا مان لیے۔ اب ہم ان نظریات کا تجزیہ کرتے ہیں۔ 

اگر خدا ایک سے زیادہ ہو تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے اس دنیا میں ایک سے زیادہ لوگوں کو اقتدار حاصل ہو تو آپس میں ان کی لڑائی اور عوام کا نقصان ہوتا ہے۔ اگر ایک سے زیادہ خدا ہو تو کائنات کا بھی یہی حال ہوگا۔ ایک سے زیادہ خداؤں کو ماننے والوں میں ایسی بہت سی کہانیاں معروف ہیں جو ان کے خداؤں کے درمیان لڑائی کو بتاتی ہے۔ اور نظام کا اس سے درہم برہم ہونا بھی واضح ہے۔ اسی لیے یہ صفات ایک ہی خدا میں ہو سکتی ہے۔ اور وہی خدا اس کائنات کا خالق اور مدبر ہے اور یہی فطرت کا بھی تقاضا ہے۔ رہا یہ سوال کہ ایک ہی ذات اتنا بڑا نظام کیسے چلا سکتی ہے جبکہ ہمارے لیے چھوٹا سا ملک چلانا مشکل ہوتا ہے تو اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ ہم اسی قدرت و طاقت کی وجہ سے اسکی عبادت کر رہے ہیں۔ ورنہ تھوڑی کسی کے سامنے اپنا ماتھا ٹیکتے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اس کے پاس وہ صفات ہیں جو کسی ذات میں جمع ہو تو وہ سب کچھ کر سکتا ہے۔ 

خلاصۂ کلام یہ ہوا کہ خالق کائنات سے متعلق انسانوں کے پیش کردہ مختلف نظریات میں وہی نظریہ قابل قبول ہے جس میں خالقِ کائنات کو انسان یا کمتر ذات نہ سمجھا گیا ہو، وہ ازل سے ابد تک زندہ ہو، ظاہر اور باطن کا جاننے والا ہو، ہر چیز پر قدرت رکھتا ہو، اور وہ یکتا و تنہا ہو۔

(جاری)

Leave a comment

Translate »
× How can I help you?