سیرت میں حُسنِ معاشرت کے نفسیاتی اصول
از: مفتی سید عاکف تمیم صاحب
قسط (1)
اِس مذکورہ عنوان کا خلاصہ یہ ہے کہ اس تحریر میں احادیث اور سیرت میں موجود چند ایسے اصول اور ضوابط کی طرف متوجہ کرنے کوشش کی گئی ہے جو حسن معاشرت کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے گویا انسانی نفسیات کو سامنے رکھ کر پیش کیے گئے ہیں
حُسنِ ظن اور سوء ظن سے متعلق نبوی اصول
ہمارے معاشرہ میں کتنے ہی جھگڑوں اور اختلافات بدگمانی اور سوءِظن کی بنیاد پر ہوتےہیں، نہ جانے آج بھی کتنے لوگ ایسے ہونگے جنہوں نے صرف اس بات پر رشتے توڑے کہ انہیں سلام نہیں کیا گیا یا انہیں سلام کا جواب نہیں دیاگیا ، جس بات کو انہوں نے اپنے تئیں بد گمانی کی بنیاد پر قطع تعلق کا بہانہ بنا لیا بہت سارے لوگ وہ ہوتے ہیں جو کسی سے بھی غیبت سن کر رشتے توڑ لیتے ہیں نہ معاف کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں اور نہ وضاحت طلب کرتے ہیں.
ذرا ملاحظہ کریں کہ شریعت میں اس سلسلہ میں کیا تعلیمات ہیں ۔
اچھا گمان رکھنے کا حکم
﴿لَوْلا إذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ ٱلۡمُؤۡمِنُونَ وَٱلۡمُؤۡمِنَـٰتُ بِأَنفُسِهِمۡ خَیۡرࣰا ﴾
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہ صدیقہ رض کی براءت کے سلسلے میں جو آیات نازل فرمائی ہیں اسی سیاق میں اس بات کا بھی حکم دیا کہ ایسے مواقع پر جب ایمان والوں نے یہ تہمت والی باتوں کو سن کر اپنے بارے اچھا گمان رکھتے “
بد گُمانی سے بچنے کا حکم
﴿یَـٰۤأَیُّهَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوا۟ ٱجۡتَنِبُوا۟ كَثِیرࣰا مِّنَ ٱلظَّنِّ إِنَّ بَعۡضَ ٱلظَّنِّ إِثۡمࣱۖ
آئے ایمان والو بہت زیادہ گمان کرنے سے بچو ؛ بلاشبہ بعض گمان گناہ کا سبب بنتے ہیں .
بہر اِن تمہیدی کلمات کے بعد اس مضمون کو ہم دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں
پھلی صورت جب ہمارے سلسلہ میں کوئی دوسرا بدگمان ہوجاۓ.
دوسری صورت جب ہم خود کسی کے سلسلہ میں بد گمان ہوجائیں
اگر کوئی ہم سے بد گمان ہو یا اس بات کا خدشہ ہو تو اس سلسلے میں تعلیمات نبویہ کیا ہیں اس کا ملاحظہ فرمائیں:
مثلاً:نبی پاکﷺکا وہ قصہ کہ آپ ایک مرتبہ رمضان المبارک کے اخیر عشرہ میں مسجد نبوی میں اعتکاف فرما رہے تھے آپ کی زوجہ مطہرہ حضرت صفیہ رض تشریف لائیں ، ملاقات کے بعد جب وہ جانے لگیں تو نبی علیہ السلام انہیں رُخصت کرنے کے لیے باب اُم سلمہ تک پاس تشریف لے گئے جہاں دو انصاری صحابہ نے گزررہے تھے جنہوں نے آپ کو سلام کیا اور تیزی کے ساتھ گزرنے لگے تو نبی علیہ اسلام نے ان سے فرمایا کہ رکو ! یہ میری بیوی صفیہ ہیں ، تو اُن دونوں صحابہ نے کہا سُبحان اللہ يا رسول اللہ یہ بات اُن دونوں صحابہ کو بڑی معلوم ہوئی ، تو نبی علیہ السلام نے فرمایا :
إنَّ الشَّيْطَانَ يَبْلُغُ مِنَ الإنْسَانِ مَبْلَغَ الدَّمِ، وإنِّي خَشِيتُ أَنْ يَقْذِفَ في قُلُوبِكُما شيئًا. صحيح البخاري ٣١٠١ •
نبی علیہ اسلام نے فرمایا کہ شیطان انسان کے جسم میں ایسے دوڑتا ہے جیسے خون رگوں میں دوڑتا ہے اور مجھے اندیشہ ہوا کہ وہ تمہارے دلوں میں کچھ وسوسہ ڈالدے
اس حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ہی ہمیں اندازہ ہو کہ کوئی ہم سے بدگمان ہوجاۓ گا یا وہ موضع تہمت ہو ہم اس سے احتراز کریں ،اور خود سے ہی وضاحت کردیں ؛ کیوں کہ شیطانی وساوس کی وجہ کوئی ہم سے بد گمانی میں مبتلاء ہوسکتا ہے.
حافظ ابنِ حجر رح فرماتے ہیں کہ نبی علیہ السلام نے اُن صحابہ کی طرف بد گُمانی کو منسوب نہیں کیا کیوں کہ اُن کے ایمان کی سچائی آپ کے نزدیک مسلم تھی ؛ لیکن آپ کو اس بات کا خدشہ ہوا کہ چونکہ وہ معصوم عن الخطاء تو نہیں ہیں كہیں( بعد میں )شیطان اُن کے دلوں میں بد گُمانی کا وسوسہ نہ ڈال دے۔
فتح الباري ٦٠٤/٦)
اسی حدیث کے تحت محمد بن عبد الهادي السندي رح فرماتے ہیں کہ شیطان کا انسان پر اچھا خاصا تسلط ہوتا ہے ،سو انسان کو چاہیے کہ وہ کسی وقت بھی شیطان کے مکائد سے غافل نہ رہے بلکہ ہمیشہ چوکنا رہے ۔ سنن إبن ماجة بشرح الإمام السندي۔(٣٦٤/٢)
حضرت طلحہ بن عبید اللہ رض کا قصہ
حضرت عمر بن خطاب رض نے طلحہ بن عبیداللہ رض کو دیکھا کہ حالاتِ احرام میں رنگین کپڑے پہنے ہوئے ہیں ، تو پوچھا: آئے طلحہ یہ رنگین لباس کیسا ؟ ، طلحہ رض نے کہا: آئے امیر المومنین یہ مٹی کا رنگ ہے حضرت عمر نے کہا :تم لوگ پیشوا ہو لوگ تمہاری پیروی کرتے ہیں، اگر کوئی جاہل جو اس رنگ سے واقف نہ ہو اس کپڑے کو دیکھے تو یہی کہے گا کہ: طلحہ بن عبیداللہ رض احرام میں رنگین کپڑے پہنتے تھے ، ؛ لہٰذا تم ایسے رنگین کپڑےمت پھنا کرو
فَلَا تَلْبَسُوا أَيُّهَا الرَّهْطُ شَيْئًا مِنْ هَذِهِ الثِّيَابِ الْمُصَبَّغَةِ.
(موطا امام مالک حدیث 909 )
حضرت جابر بن عبداللہ رض کا قصہ
حضرت جابر بن عبداللہ رض فرماتے ہیں کہ مجھے نبی علیہ السلام نے کسی کام کے لیے بھیجا ، میں جب واپس آیا تو آپ نماز میں مشغول تھے ، میں نے سلام کیا ، آپ نے جواب نہیں دیا ، اب مجھے یہ خدشہ ہونے لگا کہ شاید میرے دیر کرنے کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ پر ناراض ہوں گے ، الغرض تیسری مرتبہ میں آپ نے جواب عنایت فرمایا ، پھر آپ نے وضاحت کی إنّما مَنَعَنِي أنْ أرُدَّ عَلَيْكَ أنِّي كُنْتُ أُصَلِّي میں نے آپ کو سلام کا جواب اس لیے نہیں دیا کہ میں نماز میں مشغول تھا (واضح رہے کہ ابتدائے اسلام میں دورانِ نماز سلام و کلام کی اجازت تھی اور ممانعت ابھی ابھی نازل ہوئی تھی (صحيح البخاري ١٢١٧)
حضرت عمر بن خطاب رض کا قول ہے
من سلك مسالك الظن اتهم ” جو تہمتوں کی جگہ میں رہے گا وہ متهم ہوگا “
(كشف الخفاء للعجلوني ٥٩/١)
یعنی ہم خود ہی ایسی جگہںوں سے حتی الامکان احتراز کریں جہاں لوگ ہمیں دیکھ کر ہمارے سلسلہ میں غلط گمان کر بیٹھیں۔
دوسری صورت
کہ اگر ہمیں کسی اور سے بدگمانی ہوجائے تو ایسی صورت میں ہماری ذمے داری کیا ہے ؟
یہاں بھی کرنے کا پہلا ترجیحی كام یہی ہے کہ جب کسی کے سلسلے میں برا گمان ہمارے ذہن و دماغ میں آئے تو ہم فوری اُسے دفع کریں ، ایسا بھی ممکن نہیں ہے کہ آدمی کے ذہن میں برا گمان بلکل نہ آئے ہاں ہم اس بات کے مکلف ہیں برا خیال یا برا گمان آنے پر اس کو دفع کریں
حضرت علامہ آلوسی نے روح المعانی میں نقل فرمایا ہے کہ گمان دو طرح کے ہوتے ہیں بعض اختیاری ہوتے ہیں اور بعض غیر اختیاری ، چناچہ اگر اختیاری ہو تو معاملہ بلکل واضح ہے کہ ہم اس کے دفع کرنے کے مکلف ہیں اور اگر غیر اختیاری ہو تب ہم اس بات کے مکلف ہیں کہ ہم اس کے تقاضوں پر عمل نہ کریں اور اس شخص کو حقارت کی نظر سے نہ دیکھیں جس کی خلاف بد گُمانی ذہن میں آئی ہے ۔
روح المعانی )
حضرت عمر رض کا ہی قول ہے
ولا تظنن بكلمة خرجت من مسلم شرا وأنت تجد لها في الخير محملا “
کسی مسلمان کی بات سے اس وقت تک بد گمان نہ ہو جب تک کہ تم کو اس میں خیر کا کوئی محمل نظر آئے “
کشف الخفاء للعجلوني ٥٩/١)
دوسرا کام یہ ہے کہ بد گُمانی اگر بسہولت ختم کی جاسکتی ہو تو ملاقات کرکے ختم کریں
اگر ہم صحابہ کی زندگی میں دیکھیں تو اس کی ایک بہترین مثال موجود ہے.
قصہ یہ ھیکہ حضرت رسول اکرم ﷺ کے انتقال کے موقع پر سارے صحابہ غم والم میں ڈوبے تھےاس موقع پر حضرت عمر رضی حضرت عثمانؓ غنی کے قریب سے گزرےاور ان کو سلام کیا وہ کچھ اس قدر مغموم تھے کہ دنیا و مافیہ کی طرف توجہ ہی نہیں تھی جواب نہ دیا .حضرت عمررضی اس کا بہت ملال ہوا چنانچہ کسی موقع سے آپ رضی نے اس بات کی شکایت حضرت ابو بکر صدیق رضی سے کی حضرت ابوبکر صدیق رضی کا عمل ملاحظہ کریں قابل تقلید عمل ہے آپ نے فورًا حضرت عمر رضی سے کہا کہ ہم چل کر پوچھ لیں گے چنانچہ یہ حضرات شخصیـتیں حضرت عثمان غنی رضی کے پاس پہونچیں ، واقعہ کی خبر دی وہاں پتہ چلا کہ حضرت عثمانؓ غنی کو اس کا علم ہی نہ ہو سکا ،
وہ تو کسی اور ہی فکر میں ڈوبے ہوۓ تھے جب یہ عزر سامنے آیا تو غلط فہمی دور ہو گئی
حضرت عثمان غنی رضی سے پوچھاگیا کہ آپ کو جو فکر سوار تھی اس کی کیا وجہ تھی؟ آپ نے جواباً فرمایا کہ رسول اکرم ﷺ اس دنیا سے پردہ فرما گۓ لیکن ہم نےمعلوم ہی نہیں کیا کہ اس معاملے کا حل کیا ہے ( یعنی آپ کے جانے کے بعد اُمت کے لیے راہ نجات کیا ہے )
حضرت ابوبکرؓصدیق نے فرمایا کہ میں نے یہ سوال سرکاردو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیا تھا کہ يا رسولَ اللهِ، ما نَجاةُ هذا الأمرِ؟ کہ اے اللہ کے رسول اس معاملے کی نجات کا کیا راستہ ہے ؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا «مَن قَبِلَ الكَلِمةَ الَّتي عَرَضْتُ على عمِّي فرَدَّها عليَّ، فهيَ له نَجاةٌ» أخرجه أحمد (٢٠)
جس شخص نے مجھ سے اُس کلمہ کو قبول کر لیا جسے میں نے اپنے چچا پر پیش کیا تھا تو انہوں نے اُسے رد کر دیا تھا وہی کلمہ اس کی نجات کے لیے کافی ہے .