جنگِ آزادی تا حفاظتِ آزادی کی جد وجہد
از قلم: مفتی سید عاکف تمیم
پندرہ اگست اور یوم آزادی کے موقع سے کتنی یادیں ہیں ، کتنے جذبات ہیں اور کتنی حسرتیں ہیں جو رہ رہ کر اُبھرتی ہیں ، کیوں کہ اس حقیقت سے شاید ہی کسی کو انکار ہو کہ جس دور غلامی کو انگریزوں نے ہم پر مسلط کیا تھا اس میں بحیثیتِ قوم سب سے زیادہ اگر کسی نے نقصان برداشت کیا ہے تو وہ صرف اور صرف مسلمان قوم ہے اور اس حقیقت کے اعتراف میں بھی کوئی دورائے نہیں کہ مجموعی طور پر ڈیڑھ سو سالہ یہ دور اپنی ہی نادانیوں اور عياشیوں کی دین ہے اور تعجب ہے کہ آج ہندوستان کے موجودہ حالات اور مسلمانوں کی زبوں حالی کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پھر وہی تاریخ دہرائی جارہی ہے نہ صرف اپنی کوتاہیوں کی بلکہ اس پر مرتب ہونے والے نتائج بھی غیر معمولی طور پر یکساں نظر آرہے ہیں بلکہ بعض اعتبارات سے اُس سےبھی شدید تر، جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اُستادِ محترم شیخ الحدیث حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری رح کہتے تھے کہ “دور حاضر میں ملت اسلامیہ ہندیہ جن مسائل سے دوچار ہے اس کے مقابلے میں کی جانے والی جد و جہد جنگِ آزادی کے مقابلے میں اور زیادہ سخت ہوسکتی ہے ؛کیوں کہ تب دشمن باہر سے تھا اور اہل وطن اس کہ خلاف متحدانہ صف آرا تھے اور آج دشمن گھر کے اندر کا ہے کہ اہل وطن کو ہی باہم دست و گریباں کردیا گیا “۔
آج اِس ملک عزیز کو آزاد ہوئے 7 سے زائد دہائیاں گزر چکی ہیں ؛ لیکن دوبارہ ہم اپنی کوتاہیوں( جنمیں تعلیمی پسماندگی خاص طور پر قابلِ ذکر ہے ) کے چلتے ایسے موڑ پر آچکے ہیں کہ اس وقت ہمارے لیے ہمارے اسلاف کی طرح آزادی کے حصول کا چیلنج تو نہیں ہے لیکن اُس کی بقاء اور ثبات اور ملک کے جمہوری ڈھانچے کی بحالی کا چیلنج ضرور ہے ، قرآنِ کریم اہل اسلام کو اپنی حیات اور زندگی کا احساس دلانے کے لیے اور دیگر اقوام پر اپنا رعب و داب برقرار رکھنے کے لیے قوت و شوکت سے لبریز رہنے کا حکم دیتا ہے:” وَأَعِدُّواْ لَهُم مَّا ٱسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍۢ وَمِن رِّبَاطِ ٱلْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِۦ عَدُوَّ ٱللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَءَاخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ ٱللَّهُ يَعْلَمُهُمْ “.
اور عصر حاضر میں ہندستانی مسلمانوں کے لیے اس مطلوبہ قوت و شوکت کے حصول کا سب سے آسان اور بڑا ہتھیار تعلیم ہے ۔
اور حقیقت یہ ہے کہ انگریز اس ملک پر ہرگز قابض نہ ہوتے اگر ہم دینی و دنیاوی ہر اعتبار سے کامل و مکمل ہونے کے ساتھ ساتھ خصوصا تعلیمی میدانوں میں ناقابلِ شکست ہوتے ؛ کیوں کہ جس وقت یورپ علم و فن کی معراج پر تھا ہم کچھ سازشی عناصر کی بنیاد پر اور کچھ اپنی کاہلی کی وجہ سے تعلیم سے اتنے دور ہورہے تھے کہ آخر کار پھر وہی کمزوری ہمارے لیے زوال کا پیغام لائ جیسا کہ رود کوثر کے مصنف شیخ محمد اکرام نے لکھا : ” بنیادی طور پر زوالِ حکومت کا اصل باعث علمی ، ذہنی اور عسکری کوتاہیاں تھیں “۔( 601)
انگریز مورخ کے مطابق 19 ویں صدی کے ابتداء تک بھی صرف ایک شعبہ وکالت کا ڈیٹا یہ تھا کہ اس میں مسلمانوں کا تناسب ہندوؤں اور انگریزوں کے مجموعی تناسب کے برابر تھا لیکن پچاس سال گزرتے گزرتے یہ حال ہوا کہ 1853 سے 1868 تک اس شعبہ میں کل دوسو چالیس ہندوستانی داخل کیے گئے جن میں دو سو انتالیس ہندو تھے اور صرف ایک مسلمان تھا ۔
( ہمارے ہندوستانی مسلمان 146)
اب اس پسماندگی کے پیچھے جیسا کہ میں نے ذکر کیا کہ دو اسباب تھے ۔
ایک یہ کہ باضابطہ انگریز حکومت نے مسلمانوں کو تعلیم سے محروم کرنے کیلئے کئی ہتھکنڈے اپنائے جیسا کہ خود ایک انگریز مصنف
ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر کے مطابق :
“ہم نے ان (مسلمانوں ) کے طریق تعلیم کو بھی اس سرمائے سے محروم کر دیا جس پر اس کی بقا کا دارومدار تھا اس سے مسلمانوں کا تعلیمی نظام اور ان کی تعلیمی ادارے یک قلم مٹ گئے “. (عکسِ احمد 101)
جبکہ معلوم ہونا چاہیے کہ اسی حکومتِ برطانیہ سے قبل صرف بنگال میں اسی ہزار دینی مدارس تھے ، ایک انگریز مصنف لکھتا ہے کہ ” ہندوستان اسکولوں سے بھرا ہوا ہے ، وہاں ہر اکتیس لڑکوں پر ایک اسکول ہے “
سندھ کے متعلق مورخین نے لکھا ہے کہ ” وہاں مختلف علوم و فنون کے چار سو کالج تھے” ( عکسِ احمد)
ہندوستان کی پوری تاریخ میں علوم و فنون سائنس و فلسفہ اور صنعت و تجارت نے بحیثیت مجموعی کبھی اتنی ترقی نہیں کی جتنی کہ مغلوں کے عہد حکومت میں 200 سال کے اندر کی
تعلیم ہندوستان کے مسلم عہدِ حکومت میں ( 78)
اور دوسرا سبب وہ ہماری اپنی کوتاہیاں تھیں ہمارے بادشاہ اور حکمران بڑی تیزی سے ملک گیری کی صلاحیت اور کردار و اخلاق ہر اعتبار سے گرتے چلے جارہے تھے ، حیرت ہوتی ہے کہ ایک طرف ہندوستان کی گدی پر اورنگزیب جیسا جفا کش ، دور اندیش بادشاہ فروکش ہوتا ہے تو دوسری طرف دور زوال کے مغلیہ شہزادے جنہوں نے نفسانی خواہشات ، شہوانی جذبات کے طفیل میں پوری ملت ہندیہ اور اُن کی مذہبی اور تعلیمی آزادی کو داؤ پر لگا دیا علامہ اقبال نے سچ کہا تھا
میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول طاؤس و رباب آخر
حتٰی کہ لال قلعے میں سورہ یٰسین کی تلاوت ممنوع تھی کہ موت و اخرت کا خیال بھی عیش کے دلدادہ طبائع پر سخت گراں تھا ،
تاریخِ زوالِ اُمت (341)
چناچہ انہی کاہلیوں کی بنیاد پر انگریزی حکومت کا شکنجہ مضبوط ہوتا چلا گیا حتی کہ 1802 میں لاڈلیک نے دہلی پر حملہ کر کے شاہ عالم ثانی کو گرفتار کیا اور یہ معاہدہ لکھ لیا
شاہ عالم کی حکومت شہر قلعہ اور اطراف دہلی قطب مینار تک محدود رہے گی اور بقیہ ملک پر انگریزوں کا تسلط رہے گا اور اب مسلمانوں کے حقوق کی نگہداشت بادشاہ سلامت کی جگہ کمپنی کے ذمے ہوگی ۔
بہر حال زوال کے اِن اسباب پر خامہ فرسائی کا مقصد اس وقت یہی ہے کہ وہی جہالت کا مرض آج ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج بن چکا ہے ، یہ باتیں صرف روایتی یا نقالی کے طور پر نہیں کہی جارہی ہیں بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ غیر معمولی ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی مسلم قوم کی تعلیم سے دوری کا یہ عالم ہے کہ حال ہی میں تلنگانہ میں انٹرمیڈیٹ کے طلباء کا رزلٹ آیا اور کامیاب ہونے والوں میں سب سے نچلا پرسنٹیج مسلمانوں کا تھا ، ہمارے ملک میں مسلمانوں کی جو موجودہ حالتِ زار ہے اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے ایمان و یقین کی سلامتی و صلابت ، اعمالِ صالحہ پر ثبات و استقامت کے ساتھ جہاں سیاسی ، سماجی اور اقتصادی ترقی اور تعمیر کی ضرورت ہے وہیں سب سے زیادہ تعلیمی اعتبار سے خود کو اور اپنی قوم کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے ، اُس وقت آزادی کے حصول کی جنگ تھی اور آج آزادی کی بحالی کی جد وجہد ہے اس وقت ملک و ملت کو جانبازی و جانثاری کی ضرورت تھی اور آج پستی اور پسماندگی سے نکلنے لیے کتاب و قلم کی ضرورت ہے ، حضرت موسیٰ علیہ السلام جب کوہِ طور پر اللہ رب العزت سے ہم کلامی سے مشرف ہورہے تھے اوراپنی قوم کی طرف بھیجے جارہے تھے اس وقت اللہ نے آپ کو رسالت کے ساتھ ساتھ ایک معجزہ یہ بھی عطا فرمایا تھا کہ آپ کے ہاتھ میں موجود عصا سانپ کی شکل اختیار کرلیتا تھا ؛ لیکن سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت آپ کو ایسے کسی کرشماتی معجزہ سے سرفراز نہیں کیا گیا بلکہ جب آپ کو اُمت میں انقلاب اور تبدیلی کی روح پھونکنے کے لیے بھیجا جارہا تھا تو آپ کو قرآنِ کریم کی شکل میں ایک علمی معجزہ عطا کیا گیا جس کی ابتداء ہی اقراء کے معنیٰ خیز لفظ سے ہوئی ، الغرض اس موقع سے امت مسلمہ ہندیہ کو تعلیم پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے
حضرت فقیہ العصر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صدر مسلم پرسنل لاء بورڈ لکھتے ہیں کہ “جس طرح علماء نے دینی مدارس کی تحریک چلائی تھی ، دینی ماحول میں عصری اداروں کی داغ بیل ڈالتے تو آج اس ملک کا نقشہ الگ ہوتا ، اس ملک کے فیصلوں میں مسلمان کلیدی رول ادا کرنے کے لائق ہوتے اور مسلمان اس بے وزنی سے دوچار نہ ہوتے جس سے وہ آج دوچار ہیں”. (وہ جو بیچتے تھے دوائے دل 85)
یہ ضروری نہیں ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی اس لائق ہو کہ وہ ایک عصری ادارہ اور ایک اسلامک اسکول قائم کرے ؛ لیکن اپنے اور اپنے رشتے داروں کی حد تک اُن کے تعلیمی معیار کو بہتر کرنے کے لیے ہم بہت کچھ کوشش کرسکتے ہیں، اور کرنے کی ضرورت بھی ہے ۔
اللہ توفیق عمل نصیب فرمائے آمین ۔