بھارت آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد
بسم اللہ الرحمن الرحیم
از قلم: مفتی محمد کفیل احمد
ڈائریکٹر اسلامک ہب
انگریز سب سے پہلے 1608 میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام سے بھارت میں آئے اور آہستہ آہستہ اپنا اثر و رسوخ بنایا۔ قریب ١٥٠ سال کی مدت میں انگریزوں نے اپنی تجارتی کمپنی کو حکومت کی شکل میں بدل دیا۔ سب سے پہلے بنگال کے نواب سراج الدولہ نے انگریزوں کے خلاف جنگیں کی، چھوٹی لڑائیاں تو انہوں نے جیت لی لیکن اپنے وزیر میر جعفر کے دھوکے کی وجہ سے 1757 میں وہ شہید ہو گئے۔ 1764 میں غدار میر جعفر کے وفادار داماد سید قاسم نے اود کے حاکم نواب شجاع الدولہ اور دہلی کے مغل بادشاہ شاہ عالم کی مدد سے انگریزوں کے خلاف جنگ لڑی جس میں مسلمانوں کی شکست ہوئی جس کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی بھارت کے شمال سے جنوب تک قبضہ کے ارادہ سے سلطان ٹیپو کے میسور کی طرف بڑھی۔ 1799 میں شیرِ میسور ٹیپو کو وزیر میر صادق کی غداری کی وجہ سے شہید کر دیا گیا اور خود سپردگی کی رائے دیے جانے پر ٹیپو نے وہ تاریخی جملہ کہا جو ہر زندہ دل انسان کی آواز ہوتی ہے۔ “شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔” 1803 میں انگریزوں نے دہلی کے لال قلعے پر “یونین جیک” لہرایا جس میں اس بات کی صراحت کر دی گئی کہ خلق خدا کی، ملک بادشاہ کا، اور حکم کمپنی کا۔ اس واقعہ کے بعد ولی اللہی خاندان کے چراغ شاہ عبد العزیز دہلوی نے ہندوستان کو (جو اب تک دار الاسلام تھا) دار الحرب قرار دیا۔ اپنے بھتیجے شاہ اسماعیل کو سید احمد بریلی کی تحت میں جنگ کی تیاری کرنے کا حکم دیا۔ اور اپنے مریدین کے ذریعے ہندوستان بھر میں انگریزوں کے خلاف تحریک شروع کر دی۔ انیسویں صدی میں بھارت کے مختلف حصوں میں انگریزوں کے خلاف بہت سی ناکام کوششیں ہوئی۔ ہندوستان کے لوگوں میں مسلمانوں ہی نے سب سے پہلے انگریزوں کے خطرے کو محسوس کیا، پھر 1857 میں انگریزوں نے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو بھی ختم کر دیا اور متحدہ بھارت کے مالک بن گئے، جس میں ان لوگوں نے بھارت واسیوں پر ہر طرح کے ظلم کو روا رکھا۔ انگریزوں کے بھارت پر قبضہ سے غیر مسلموں کو صرف ایک ہی نقصان تھا کہ ان کے ملک پر غیروں نے قبضہ کر لیا، لیکن مسلمانوں کو دو گنہ مشکل تھی کیونکہ انگریز اپنا عیسائی نظریہ بھی عام کر رہے تھے، فحاشی و بے حیائی کو فروغ دے رہے تھے، تو یہ مسلمانوں کے ملک اور ملت دونوں پر حملہ تھا۔ چنانچہ علماء کرام نے ہر طرف مدارس کے داغ بیل ڈالی، اور مذہب و ملت کی حفاظت کو اولین فریضہ سمجھا، ساتھ ہی ایسے افراد تیار کیے جنہوں نے ہندوستان کے آزادی میں بڑا کردار ادا کیا، سبھاش چندر بوس کی آزاد ہند فوج کا بڑا حصہ بھی مسلمان ہی تھے۔ درمیان میں کانگرس اس بات کے لیے تیار ہو گئی تھی کہ انگریزوں سے مکمل آزادی حاصل کیے بغیر ان کے ماتحت رہتے ہوئے حکومت چلائے لیکن جمعیت علمائے ہند نے اس سے اتفاق نہیں کیا، جس پر بعد میں کانگرس بھی راضی ہو گئی۔ پھر قریب ایک صدی کی مسلسل جدو جہد اور لاکھوں جانوں کی قربانی کے بعد بھارت پر سے انگریزوں کا سیاہ سایہ ختم ہوا، اور بھارت ایک آزاد ملک قرار پایا۔ لیکن انگریزوں نے اپنے دور حکومت میں کچھ ایسے کام کیے جو آج بھی ہمارے لیے مشکلات کا باعث بنے ہوئے ہیں۔
١) انگریزوں کو مسلمانوں کی کمر توڑنا تھا، کیونکہ اس ملک پر انگریزوں سے پہلے مسلم بادشاہوں کی حکومت تھی، اور جب تک فاتح قوم مفتوح قوم کی رگوں سے حکومت کا جذبہ ختم نہیں کرتی اس کی حکومت مضبوط نہیں ہوتی ہے، اسی لیے انگریزوں نے ہندوؤں کو جو یہاں کی اکثریت تھی یہ کہہ کر گمراہ کیا کہ مسلمان باہری ہے اصل تو یہاں کے ہندو ہے، نتیجے میں ہندو مسلم منافرت کی ابتدا ہوئی جو آج سارے ملک کے لیے درد سر بنا ہوا ہے۔ ہندو مسلم پہلے بھی اس ملک میں رہتے تھے لیکن ایسے دنگے نہیں ہوتے تھے جیسے اب دیکھے جا رہے ہیں۔
٢) انگریزوں نے اپنے کلچر کو اتنب پروان چڑھایا کہ بھارتیہ شخص آزادی کے بعد بھی ذہنی غلامی سے باہر نہیں نکلا، آج بھی بھارت میں انگریزی بولنا کامیابی سمجھا جاتا ہے، مغربی نظریات و تہذیب کو ترقی کا معیار گردانا جاتا ہے۔
٣) دین و دنیا جو ماضی میں یکساں طور پر قابل عمل تھے، انگریزوں کے نظریات نے مذہب کو ذاتی معاملہ بناتے ہوئے دین کی اہمیت کو ختم کر دیا، اور مادی ترقی کو ہی زندگی کا اصل مقصد بنا دیا۔
٤) سونے کی چڑیا بھارت کا سارا مال لوٹ کر انگلینڈ کی ترقی میں لگادیا، جس کی وجہ سے ہندوستانی کسمپرسی کے عالم میں چلے گئے، غربت و افلاس آزادی کے وقت آسمانوں پر تھا۔
٥) متحدہ بھارت کو جو افغانستان سے بنگلہ دیش تک کشمیر سے کنیا کماری تک پھیلا ہوا تھا؛ چار ملکوں میں تقسیم کر دیا۔
انگریزوں کی ان تمام کوششوں کے باوجود آج بھارت ترقی پذیر ملکوں کی دوڑ میں بہت آگے ہے، کچھ شر پسند عناصر کے علاوہ جو انگریزوں کے خوشہ چین ہیں، بھارت کے لوگ آج بھی شیر و شکر کی طرح زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور گزارتے بھی ہیں۔ ایک وضاحت تمام بھارتیوں کے لیے یہ ہے کہ اسلام دیگر مذاہب کے وجود کی مخالفت نہیں کرتا ہے، بلکہ ظلم کی مخالفت کرتا ہے، چاہے وہ کسی نظریے میں ہو یا کسی شخص کی طرف سے ہو، اگر کوئی مسلمان نام رکھتے ہوئے یا مسلمان ہوتے ہوئے کسسی نظریے کے وجود کی مخالفت کر رہا ہے، دہشت گردی کر رہا ہے تو ایک سچا مسلمان اس کا کبھی ساتھ نہیں دے گا، اسلام امن کے لیے آیا ہے نہ کہ ظلم کے لیے۔ اللہ تعالی ہم سب کو اپنے مذہب پر عمل پیرا رہتے ہوئے ملک کی ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی توفیق دے آمین۔