Skip links

*موضوع احادیث کے بعض مخصوص عنوانات

*موضوع احادیث کے بعض مخصوص عنوانات

*تمہید*

از قلم: مفتی سید عاکف تمیم قاسمی

 حدیث کی کتابوں میں جو کُتُب مضوعات سے متعلق لکھی گئیں ہیں اُن میں موضوع روایات کو بیان کرنے کے لیے مختلف مناہج اختیار کیے جاتے ہیں مثلا بعض دفعہ وضاعین کو حروف تہجی کے اعتبار سے ذکر کرکے اُن کی موضوع روایات کو ذکر کیا جاتا ہے ، بعض دفعہ خود موضوع احادیث کو ہی حروف تہجی کے اعتبار سے ذکر کردیا جاتا ہے ؛ اسی طرح بعض دفعہ ایسے مخصوص عنوانات کو ذکر کیا جاتا ہے جنکے تحت میں عام طور پر احادیث گھڑی گئیں ہیں ، چناچہ اس مختصر مضمون کے ذریعہ یہ کوشش کی گئی ہے کہ کتب حدیث میں موجود اہم ترین عنوانات کا ذکر کیا جائے جن کے تحت آج کے دور میں بھی موضوع احادیث بے دھڑک بیان کردی جاتی ہیں اللہ زبان و قلم کی لغزش سے ہم سب کی حفاظت فرمائے ۔آمین

*مختلف صحابہ و آئمہ کی شان میں گھڑی گئیں موضوع احادیث*

 

حضرت عبد الفتاح ابو غدّہ رح کے مطابق سب سے پہلے وضع حدیث کی ابتدا اسی عنوان کے تحت ہوئی( لمحات من تاريخ السنة وعلوم الحديث ٩٦) 

  در اصل حضرت عثمان غنی رض کی شہادت کے بعد اُمت میں جو سیاسی اختلاف ہوا وہ اتنا سنگین ہوگیا کہ ہر گروہ کے متبعین نے اپنے قائد کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے وضع حدیث کا سہارا لیا اہلِ تشیع نے حضرت علی کرم اللہ وجہ کے فضائل میں احادیث وضع کیں امام ابنِ جوزی رح لکھتے ہیں کہ روافض کے مقابلے میں کچھ بد بختوں نے حضرت ابو بکر صدیق رض کے فضائل میں بھی احادیث گھڑیں جبکہ دونوں حضرات اِن جھوٹے فضائل سے بے نیاز ہیں ( كتاب الموضوعات (٣٠٣/١ )

امام ابن حجر رح لسان المیزان کے مقدمے میں لکھتے ہیں کہ فضائل کا عنوان ایک طرح سے موضوع اور ضعیف روایات کی آماجگاہ ہے ، اہلِ بیت اطهار کے فضائل میں روافض نے کتنی ہی احادیث گھڑی ہیں جنکے جواب میں اہلِ سنت کے کچھ جاہلوں نے بھی وضع حدیث کا ارتکاب کیا .(لسان الميزان ٢٠٧/١ ) 

اسی طرح أئمہ مجتہدین کی شان میں بھی احادیث گھڑی گئیں جنمیں تین درج ذیل ہیں

1۔امام شافعی کی شان میں عالم قريش يملأ الأرض علما قریش کا ایک عالم پوری سر زمین کو علم سے بھر دیگا ۔ 2 أبو حنيفة هو سراج أمتي ، ابو حنیفہ میری امت کے چراغ ہیں ۔ 3۔ يكون في أمتي رجل يقال له محمد بن إدريس ، أضر على أمتي من إبليس میری امت میں ایک آدمی ہوگا جس کو محمد بن ادریس کہا جائے گا وہ میری امت کے لیے ابلیس سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوگا ۔ العياذ بالله).

( الفوائد المجموعة ٤٢٠)

*مختلف نظریات و افکار سے متعلق موضوع احادیث* 

 

اسی اختلاف کی گہما گہمی کا نتیجہ یہ ہوا کہ اُمت مختلف فرقوں میں بٹنا شروع ہوگئی ، متعدد نظریات وجود پذیر ہوئے جنکے پیشواؤں نے اپنے مذہب کی تائید میں احادیث وضع کیں اور اس کے ذریعے سے اپنی بدعات و خرافات کو رائج کرنے کی کوشش کی ، خوارج کے ایک عالم نے جب اپنی فکری کجی سے توبہ کی تو اس نے کہا : تم جن لوگوں سے دین حاصل کررہے ہو اُن کو اچھی طرح پرکھ لو ؛ کیوں کہ ہمارے طبقہ کے افراد کی روش یہ تھی کہ ہم جب کسی نظریہ کی حمایت کرتے تو اُس کے لیے ایک حدیث گڑھ لیتے ” 

تنزيه الشريعة المرفوعة (١٦/١) 

چناچہ روافض ، خوارج وغیرہ کے بشمول محدثین کی صراحت کے مطابق احناف و شوافع کی جانب سے بھی اپنے اپنے مذہب کی تائید میں احادیث گھڑنے کے واقعات پیش آئے ہیں اگرچہ یہ وضع کی نسبت مسالک اربعہ میں سے کسی بھی مستند شخصیت کی طرف منسوب نہیں ہیں؛ لیکن اپنے آپ میں ایک لمحہ فکر ہے ۔

*اعمال کے فضائل سے متعلقہ احادیث* 

 

محدثین کے مطابق ایسی بہت ساری احادیث ہیں جو ترغیب و ترہیب کے ابواب میں گھڑی گئیں ، علامہ عبد الحی لکھنوی رح فرماتے ہیں اِس میں خاص طور پر وہ احادیث شامل ہیں جو مختلف نمازوں کے فضائل سے متعلق ہیں ۔ 

(ألآثار المرفوعة في الأخبار الموضوعة ص١٥)

اور ملا علی قاری رح رقمطراز ہیں کہ وہ حدیثیں جو ہفتے کے سات دنوں سے متعلق ہیں مثال کے طور پر ہفتے کی دن کی فلاں نماز ، اتوار کے دن کی فلاں نماز ،پیر کے دن کی فلاں نماز وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ اس قسم کی ساری احادیث موضوع ہیں ۔

(الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة ٣٠٣)

یہاں یہ ذکر بے جا نہ ہوگا کہ سوشل میڈیا کے اس دور میں لوگ بکثرت ایسے پیغامات ایک دوسرے کو ارسال کرتے ہیں جن میں کسی خاص عمل یا خاص موقعے کی مناسبت سے من گھڑت روایات درج ہوتی ہیں اور بغیر تحقیق کیے اُسے آگے ارسال کردیا جاتا ہے مثلا ہمارے دیار رمضان کے موقع سے ایک پوسٹ گشت کررہا تھا جس کا مضمون یہ تھا کہ “جو شخص سب سے پہلے رمضان کی خبر دے گا اُس پر جہنم کی آگ حرام ہے “

اور اس میں یہ وضاحت تھی کہ یہ حدیث ہے ( حاشا و کلا) 

دار العلوم دیوبند سے بھی اس بارے میں سوال کیا گیا جسکا جواب درجہ ذیل ہے

ہمارے علم میں ایسی کوئی حدیث نہیں، جو لوگ سوشل میڈیا پر اس کو حدیث کے نام سے پھیلارہے ہیں ان سے اس کا حوالہ دریافت کریں، اور جب تک تحقیق سے حدیث ہونا معلوم نہ ہوجائے اسے ہرگز شیئر نہ کریں، 

جواب نمبر: 160406

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،

دارالعلوم دیوبند۔

 

*کسی متعینہ تاریخ کا ذکر ہونا* 

 

 ایسی بہت ساری احادیث ہیں جو سن اور تاریخ کی تحدید و تعیین کے ساتھ گھڑی گئیں ہیں ، چناچہ ملا علی قاری رح لکھتے ہیں ، جو احادیث اس قسم کے مضامین پر مشتمل ہیں کہ “اگر فلاں فلاں سال ہوگا تو ایسا ہوگا اور فلاں فلاں مہینہ آئے گا تو ایسا ایسا ہوگا” اس قسم کی ساری احادیث موضوع ہیں ، مثال کے طور پر کذاب أشر کا قول کہ” جب کسوف قمر محرم کے مہینے میں ہوگا تو بہت فتنہ انگیزی اور قتل و غارتگری ہوگی ” 

الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة (٢٩٢) 

 

ماضی قریب میں اس ایک مثال کویڈ کا دور ہے جس میں ایک پوسٹ خوب گشت کررہا تھا جو اگرچہ کسی حدیث کے حوالے سے نہیں تھا لیکن یہ سمجھنے کے لیے بہت کارگر ثابت ہوگا کہ زنادقہ یا دین کے دشمن اُمت میں گمراہی پھیلانے کے لیے وقت اور ماحول کا کیسے استعمال کرتے ہیں 

 

إذا تساوى الرقمان …

کہ جب دو عدد (20.20 ) برابر ہوجائیں گے ، زمانے میں مرض پھیل جائے گا اور حج کرنا روک دیا جائے گا اور شور و غل برپا ہو گا وغیرہ وغیرہ ۔۔۔

اور دعویٰ کیا جارہا تھا کہ یہ ابراہیم بن سالوقيه المتوفی 463 ھ کی تالیف” کتاب اخبار الزمان” میں موجود ہے 

جبکہ اس نام کے کوئی مصنف ہی تاریخ میں مذکور نہیں ہے اور مذکورہ کتاب ابو الحسن علی المسعودی م 346ھ کی تالیف ہے جہاں ایسی کوئی عبارت مذکور نہیں ہے ۔

 

*فن تاریخ سے متعلقہ کُتب کے سلسلے میں ایک اہم وضاحت* 

 

تاریخی کتب کے سلسلے میں حضرت عبد الفتاح رح نے بڑی عمدہ بات کہی

ملا علی قاری رح کی تصنیف المصنوع فی معرفۃ الحدیث الموضوع کے مقدمہ میں ذکر فرماتے ہیں کہ کسی حدیث کے تاریخ یا سیر کی کتابوں میں مذکور ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ صاحبِ کتاب نے بھی اُس کی توثیق کی ہو جیسا کہ ابنِ جریر طبری رح کا اپنی تاریخ میں ، ابو نعیم اصفہانی رح کا دلائل النبوۃ میں ،بیہقی رح کا بھی اپنی تصنیف دلائل النبوۃ میں یا قسطلانی رح کا المواہب اللدنيه میں ذکر کردینا اس بات کی دلیل نہیں ہوتا کہ ان اکابر نے اپنی کُتب میں مذکور تمام روایات کی توثیق کی ہو بلکہ ان مولفین کا یہ طرزِ عمل ہے کہ وہ باب یا مضمون سے متعلق تمام مرویات کو یکجا کردیتے ہیں تاکہ قاری اُن کی اسناد اور رجال کو دیکھ کر خود فیصلہ کرلے ۔ چناچہ امام ابنِ جریر طبری رح نے خود اپنی تاریخ کے مقدمے میں صراحت کی ہے کہ ہماری اس کتاب کے مطالعہ کرنے والے کو واقف ہونا چائیے کہ اس میں ہم نے بہت ساری مرویات ذکر کیں ہیں جن میں بعض صحت سے کوسوں دور ہیں جس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ہماری جانب سے ذکر کی گئیں ہیں بلکہ وہ ہم تک دیگر رواۃ کے ذریعے پہونچی تھیں جنہیں ہم نے بعینہ نقل کردیا ۔

( المصنوع في معرفة الحديث الموضوع ص١٨ )

اسی طرح حضرت اسماعیل العجلونی نے مختلف نمازوں کے سلسلے میں وارد موضوع احادیث کا ذکر کرنے کے بعد لکھا کہ ان احادیث کے قوت القلوب ، إحياء العلوم اور تفسیر ثعالبي جیسی کُتب میں موجود ہونے سے دھوکہ نہیں کھانا چائیے

( كشف الخفاءومزيل الإلباس (٥٠٤/٢ )

علامہ عبد الحی لکھنوی رح نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ جب تک سند کا علم نہ ہو اُن احادیث کا بھی کوئی اعتبار نہیں جو فقہ کی بڑی بڑی کتابوں میں نقل کی گئیں ہیں پھر چاہے اُن کے مصنف فقہ اور احکام و مسائل کے نقل کرنے میں کتنے ہی ماہر ہوں ۔

(الأجوبة الفاضلة ٢٩)

*مغازی ، ملاحم اور تفسیر* 

 

امام احمد بن حنبل رح نے فرمایا 

تین کُتب ایسی ہیں جن کی کوئی اصل نہیں ہے مغازی ، ملاحم اور تفسیر ۔

 *وضاحت* 

خطیب رح نے فرمایا کہ یہ قول ایسی کتب پر محمول ہوگا جو خاص انہی عنوانات پر مرتب کی گئیں کہ اُن پر اعتماد اسلئے نہیں کیا جاسکتا کہ اُس کے رواۃ عادل نہیں ہیں اور قصہ گوئی کرنے والوں نے اُس میں اضافے کردیئے ہیں ؛ لہٰذا اس باب میں صحیح اور معتبر احادیث کی بہت قلیل مقدار ہے۔ (269 الاسرار المرفوعہ) {ورنہ تو ظاہر ہے کہ اِن عنوانات پر مشتمل احادیث کی ایک معتدبہ مقدار ایسی ہے جس کی صحت اور ثبوت میں کوئی شبہ نہیں ہے اور جو صحاح ستہ اور دیگر معتبر کُتب میں وارد ہوئی ہیں ، خود امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں اس کا اخراج کیا ہے}۔

اسی طرح قاضی اطہر مبارک پوری صاحب نے اپنی کتاب تدوین سیر و مغازی میں نقل کیا ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ تم لوگ مغازی موسیٰ بن عقبہ سے حاصل کرو وہ ثقہ ہیں ، امام احمد کا یہ بھی قول ہے کہ ابنِ اسحاق سے مغازی حاصل کی جائے البتہ حلال و حرام میں احتیاط کی جائے (صفحہ 22)

ملا علی قاری رح نے لکھا کہ بعض تفاسیر میں ہر سورت کی ابتداء یا انتہاء میں اُس کے مستقل فضائل درج ہیں بعض دفعہ خود واضعین نے اس کا اقرار کیا ہے کہ ہم نے اس قسم کو احادیث اس مقصد کے تحت وضع کیں تھیں کہ لوگ قرآن سے شغف پیدا کرلیں( العياذبالله )اس قسم کے فضائل سے متعلق حضرت عبد اللہ بن مبارک رح فرماتے تھے “أظن الزنادقة وضعوها” میرا خیال ہے کہ زنادقہ نے اس کو گھڑا ہے ۔

الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة ( ٣١٣)

 

*اختتام* 

اِن عنوانات کو مرتب کرنے کا مقصد ہر گز یہ نہیں ہے کہ ان کے تحت میں درج ہونے والی یا اس مضمون پر وارد ہونے والی ہر حدیث موضوع یا من گھڑت ہے بلکہ جب کبھی ہم ان موضوعات سے متعلقہ احادیث کا مطالعہ کریں تو تحقیق کا خوب اہتمام کریں ویسے تو ہر حدیث کے سلسلے میں یہی رویہ ہمارا ہونا چائیے ، جیسا کہ ابنِ ماجہ کے مقدمے میں مروی ہے کہ حضرت ابن مسعود رض کا معمول تھا کہ وہ ہر جمعرات کو نصیحت کرتے تھے ایک مرتبہ نصیحت کے لیے جب کھڑے ہوئے تو فرمایا قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لیکن یہ کہتے ہیں آپ نے اپنا سر جھکا لیا راوی کہتا ہے کہ میں نے حضرت کو دیکھا تو آپ اس حال میں کھڑے ہوئے تھے آپ کی قمیص کی گنڈیان کھلی ہوئی تھیں ، آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے اور رگیں پھول چکی تھیں پھر آپ نے فرمایا *أَوْ دُونَ ذَلِكَ، أَوْ فَوْقَ ذَلِكَ، أَوْ قَرِيبًا مِنْ ذَلِكَ، أَوْ شَبِيهًا بِذَلِكَ.*

 صحيح ابن ماجه ٢١

حضرت ابنِ مسعود رض کا حدیث کی روایت کو لیکر اس قدر اہتمام ہم سب کے لیے ایک سبق ہے ، اللہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے متعلق غلط بیانی سے ہماری حفاظت فرمائے آمین

Leave a comment

Translate »
× How can I help you?