محدثین عظام اور قوة حافظہ
از: مولانا اشرف رفیق یم.پی
انا نحن نزلنا الذکر واناله لحافظون (الحجر ٩)ھمیں ہماری ماضی کی تاریخ جسے ہمارے اکابر نے دین و مذہب کی سرخروئی کا ایک روشن باب بنایا ھے اور اپنی بے پناہ کوششوں سے اسکی رگوں میں رنگ بھرا ھے،کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ پروردگار عالم نے اپنی گونہ گوں حکمتوں سے تمام عالم کو پیدا کیا، اور اخیر میں پائیدار تاقیامت باقی رہنے والی شریعت دیکر اپنے حبیب کو بھیجا، چونکہ پچھلی امتوں کے شرائع اور احکام میں ریچ پیچ تبدیلی و ترمیم ھوئی ھے جو کہ انکی شریعت کے موقت ہونے کا نتیجہ ہے، اور ھماری شریعت رہتی دنیا تک کیلیے ھے، لہذا اسکی حفاظت کا ذمہ بھی رب العالمین نے خود اپنے اوپر لیا،اور دار الاسباب میں آفتاب نبوت کے پردہ فرماجانے کے بعد ایسے افراد اپنے حبیب کی امت میں پیدا فرماۓ کہ دین و مذہب کے خاطر جانیں لگادی مگر دین پر حرف نہ آنے دیا۔ چنانچہ حفاظت قرآن و حدیث کیلیے انتظام یہ فرمایا کہ ان میں حفاظ پیدا ھویے کئی کئی لاکھوں کی تعداد میں حفظ قرآن کے حاملین نے جنم لیا، صحابہ میں ایسا جذبہ حفظ قرآن کارفرما تھا کہ بسا اوقات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین آپس میں ایک دوسرے سے پوچھا کرتے تھے کہ کیا کوئی آیت نازل ھوئی؟،خود نبی پاک صلی االلہ علیہ السلام کا یہ حال تھا کہ ابتدائی وحی کے وقت نزول وحی کے موقع پر جلدی جلدی زبان کو حرکت دیتے تاکہ محفوظ فرمالیں، جمع قرآن کا واقعہ جو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں پیش آیا اسکا محرک بھی یہی بنا کیونکہ جنگ یمامہ میں تقریبا ٧٠ حفاظ کرام شہید ہوگیے تھے لہذا ضیاع قرآن کے اندیشہ سے قرآن جمع کیا گیا، اسی طرح حدیث و سنت کو منہ زبانی کرڈالا، اور حفظ کیلیے لازمی طور پر حافظہ کا قوی بالخصوص جبکہ مذہب اسلام کی بقاء کا مسئلہ ھے تو اقوی ھونے کی ضرورت تھی تو بہترین حافظہ اللہ تعالی نے عنایت کیا۔ چند مثالیں درج ذیل ھیں م: صحابہ میں خیبر کے بعد ایمان لانے والے ابو ھریرہ کے نام سے مشہور و معروف سب سے بڑے محدث گزرے ہیں، آپ (رضی اللہ عنہ) کثرت سے احادیث بیان کرتے تھے تو مروان بن حکم نے ایک مرتبہ سوچا کہ ابوھریرہ سے ھم بھی کچھ احادیث سنیں،دعوت پر بلاکر بعد دعوت کے جہاں بیٹھے تھے دو بندوں کو کاغذ قلم دیکر پیچھے بٹھادیا اور انسے کہدیا جو بھی وہ بیان کریں لکھتے رہنا،چنانچہ اس مجلس میں ابو ھریرہ نے سوسے زائد احادیث سنائیں اور تشریف لے گیے،ایک سال بعد اسنے دوبارہ دعوت دی،اور انہی دو بندوں کو کہا اب پھر لکھیں،اور ادھر حضرت سے فرمایش کی کہ وہی احادیث دوبارہ سنیںگے جو پچھلے سال سنائیں تھی،حضرت نے سنائیں دوبندوں نے کاغذوں پر لکھی ھوئی احادیث کے ساتھ ملاکر دیکھا تو ایک حرف کا فرق بھی نظر نہ آیا۔اسی طرح عبداللہ بن ابی داؤد رحمہ اللہ علیہ ایک دفعہ اصفہان پہنچے تو وہاں کے علماء نے بڑے محدث کا بیٹا سمجھ کر انکا استقبال کیا،اور احادیث سنانے کی درخواست کی،انہوں نے اپنی یادداشت سے ٣٥ہزار احادیث انکو اسی محفل میں سنادیں، ایسی اور بھی مثالیں تاریخ میں درج ہیں جنکا یہاں طوالت کے اندیشہ سے تذکرہ نہیں کیا گیا، جن میں علیحدہ علیحدہ طبقے کے لوگ شامل ہیں صحابیات میں مثلا ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا،صحابہ میں حضرت انس،عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما ہیں جنکا شمار مکثرین میں ھے،بعد کے زمانہ میں امام شافعی،امام بخاری،امام ترمذی رحمہم اللہ تعالیٰ کا حافظہ قابل ذکرھے ۔
ان تمام باتوں سے معلوم ہوا کہ ہماری شریعت ہمارا دین اسلام بغیر کسی کاٹ چھانٹ کے بعینہ محفوظ ھے لیکن یاد رہے کہ کوئی چیز محظ محفوظ ہو لیکن استعمال میں نہ آتی ہو تو بعد میں اسکے مالک کو کف افسوس ملنا پڑتا ھے کہ وہ شئی جب قابل استعمال تھی تب ہم نے اس سے کام نہیں لیا اب جبکہ date ختم ہوچکی ھے اسے استعمال نہیں جاسکتا اسلیے آج ہمارے پاس وقت ھے اسے غنیمت جان کر ایک ایک لمحہ کو قیمتی سمجھ کر احکام خداوندی کو جان کر عمل میں لانا چاہیے ورنہ ہماری موت پر وقت اور تاریخ ختم ہوجائیگی اور حسرت کے سوا کچھ ہاتھ نہیں لگےگا