نافعیت سببِ بقاء ہے
از: مفتی انعام اللہ حسن حیدرآباد
اپنی ذات سے دوسروں کو ‘نفع پہنچانا’ اور اُن کے حق میں ‘نفع بخش بننا’ ویسے تو ہر ذی شعور کے نزدیک قابلِ تعریف اور لائقِ تقلید عمل ہے؛ لیکن قرآن مجید میں اس کو جس انداز میں “بقاء” کا ضابطہ قرار دیا گیا ہے، وہ مخاطب کے دل و دماغ پر سب سے زیادہ اثرانداز ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْھَبُ جُفَاءً ، وَ اَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الاَرْضِ ، کَذٰلِکَ یَضْرِبُ اللہُ الاَمْثَالَ۔(سورۃ الرعد: 17)
ترجمہ: پس جھاگ تو سوکھ کر ختم ہوجاتا ہے،اور جو چیز لوگوں کو نفع دیتی ہے وہ دنیا میں رہتی ہے، اللہ تعالیٰ اِسی طرح مثالیں بیان کیا کرتے ہیں۔
دنیا ایک خدائی کارخانہ ہے، اللہ تعالیٰ کا جو نظام اِس دنیا میں جاری و ساری ہے؛ وہ اس آیت شریفہ میں صاف طور پر بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نفع دینے والی چیزوں کو دنیا میں قرار عطا کرتے ہیں اور اُن کی بقاء کا سامان فرماتے ہیں۔ جبکہ غیر نفع بخش چیزوں کو زیادہ دنوں تک باقی نہیں رکھتے۔
اللہ تعالیٰ خود بھی “نافع” ہیں اور نافعیت کے بڑے قدردان ہیں۔
چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جب دریافت کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کا سب سے محبوب بندہ کون ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : “اَنْفَعُ النَّاسِ لِلنَّاسِ” وہ؛ جو لوگوں کو سب سے زیادہ نفع پہنچائے (رواہ ابو نُعَیْم فی الحلیۃ 383/6)
نفع رسانی خواہ کسی حیثیت سے ہو، وہ سببِ بقاء اور سببِ محبوبیت ہے، نافعیت میں جس قدر اضافہ ہوگا قدرت کی طرف سے اتنا ہی سامانِ بقاء فراہم کیا جائے گا۔
بقائے انفع کا یہ ضابطہ ایک حدیث سے بھی ثابت ہوتا ہے۔ حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ اَحَبَّ اَنْ یُبْسَطَ لَہٗ فِیْ رِزْقِہٖ وَ یُنْسَأَلَہٗ فِیْ اَثَرِہٖ فَلْیَصِلْ رَحِمَہٗ۔”جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اُس کے رزق میں وسعت کی جائے اور اُس کے نشاناتِ قدم دیر تک باقی رہیں؛ اس کو چاہیے کہ صلہ رحمی(رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک)کرے” (بخاری: باب مَن بُسِطَ لہ فی الرزق بصلۃ الرحم)
شارحین کے مطابق اِس حدیث میں وسعتِ رزق سے برکت مراد ہے، نیز نشاناتِ قدم کے دیر تک باقی رہنے سے مراد بھی بعض کے نزدیک برکت ہی ہے؛ جبکہ بعض شُرّاح مرنے کے بعد ذکرِ خیر کے باقی رہنے یا اولاد کی کثرت کو مراد لیتے ہیں۔
اس حدیث میں وسعتِ رزق اور نشاناتِ قدم میں تاخیر کے جو بھی معنیٰ مراد لیے جائیں ؛ اس کا سبب تو صلہ رحمی یعنی رشتہ داروں کے حق میں نافع بننے ہی کو قرار دیا گیا ہے۔
چنانچہ یہ حدیث’ مضمون کے اعتبار سے اوپر گزری ہوئی آیت: “وَ اَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاَرْضِ” کے ہم معنیٰ قرار دی جاسکتی ہے۔
یہاں ایک نکتہ کی طرف اشارہ کردینا مفید معلوم ہوتا ہے کہ مخلوق میں سب سے زیادہ نفع بخش اور ‘انفع’ انبیاء کرام علیھم الصلاۃ و السلام ہوتے ہیں جو اُمت کو ابدی ناکامی سے نکال کر لازوال کامیابی کی راہ دکھلاتے ہیں؛ اُن مقدس ہستیوں کی انفعیتِ تامّہ (سب سے زیادہ نفع بخش بننے) کا ایک نتیجہ یہ سامنے آیا کہ انبیاء کرام علیھم الصلاۃ و السلام کی شان میں خصوصی طور پر یہ وارد ہے کہ قبور میں اُن کے مبارک جسم بھی بالکل محفوظ اور باقی رہتے ہیں، مٹی اُنھیں کھا نہیں سکتی ! صحیح سند کے ساتھ حضرت اَوس بن اَوسؓ کی روایت میں ہے کہ نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اِنَّ اللہَ حَرَّمَ عَلَی الاَرْضِ اَنْ تَاْکُلَ اَجْسَادَ الاَنْبِیَاءِ، فَنَبِیُّ اللہِ حَیٌّ یُرْزَقُ۔ “اللہ تعالیٰ نے زمین پر یہ بات حرام کردی ہے کہ وہ انبیاء کے جسموں کو کھائے، چنانچہ اللہ کا نبی (عالمِ برزخ میں) زندہ ہوتا ہے، اسے رزق عطا کیا جاتا ہے” (ابنِ ماجہ، باب ذِکر وفاتہ و دفنہ صلی اللہ علیہ وسلم)
نافعیت اور نفع رسانی ایک ایسا وصف ہے جس کی قدر و منزلت تمام اقوامِ عالم کے نزدیک مسلّم ہے، صرف یہی نہیں؛ بلکہ جو شخص اس وصف سے جتنا زیادہ متصف ہوتا ہے؛ اُس کی طرف اُتنی ہی زیادہ احتیاج بھری نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے، انسان تو انسان جانور بھی نافعیت کی زبان کو سمجھتے ہیں۔
اس کے بالمقابل جس چیز میں کوئی نافعیت نہیں، جو کوئی اہم خدمت انجام نہیں دے رہے ہے؛ اس کی نہ تو کوئی ضرورت محسوس کی جاتی ہے اور نہ ہی اُسے باقی رکھا جاتا ہے۔
یہاں پہنچ کر ہمیں بھی اپنی بقاء کی فکر لازم ہے، بقائے انفع کے اس قرآنی قانون کے تناظر میں ہمیں اپنی انفعیت (اپنی ذات سے مخلوق کو سب سے زیادہ نفع پہنچانے والا) ثابت کرنے کی جدوجہد کرنی ہی چاہیے۔
دعا ہے کہ خداوندِ قدوس ہمیں وجوہِ انفعیت سے مالامال فرمائے۔ آمین