Skip links

دل مردہ دل نہیں، اسے زندہ کر دوباره

 

ازقلم : عبد القوی ذکی حسامی امام وخطيب مسجد لطف اللہ دهاتونگر حیدرآباد

 

اللہ رب العزت نے انسان کو اپنا خلیفہ بنایا، اسکو اشرف المخلوقات کا طمغہ دیا، انسان کی خلقت و بناوٹ میں اپنی قدرت کے انمول نظارے جلوہ گر کیا، اور یہ انسان دو چیزوں کا مرکب ہے جسم اور روح جسم اور روح کے درمیان بڑا گہرا رشتہ ہے، دونوں ساتھ رہیں تو زندگی ، جدا ہو جائیں تو موت ،ان دو عنصروں سے انسان کا تعارف ہے، دونوں کی نشو و نمائی مختلف، دونوں کی غذا اور ترو تازگی کی راہیں مختلف، دونوں کے سامان تسکین مختلف ہیں جسم کا تعلق ظاہر سے ہے، روح کا باطن سے ہے، ایک ظاہر کی زندگی اور موت ہے ، ایک باطن کی زندگی اور موت ، جس طرح دل کی تین رگیں مفلوج ہوجائے تو ظاہر کی موت کا پتہ چلتا ہے، اسی طرح تین جگہوں پر اپنے دل (روح) کی کیفیت معلوم ہوتی ہے۔ آیا وہ زندہ ہے یا مردہ۔ اور یہی وہ روح ہے جس سے انسان کو خدا شناسی ہوتی ہے، اسی سے انسان، انسان ہوتا ہے۔

تین با تیں جس ے دل مردہ ہے یا زنده! معلوم ہو جا تا ہے۔

يقول الصحابي الجليل عبد الله بن مسعود اطلب قلبك في ثلث مواطن ا۔ عند سماع القرآن ۲ و في مجلس الذكر – وفي وقت الخلوة فان لم تجده في هذه المواطن فاعلم انه لا قلب لک فسئل الله قلبا آخر حضرت عبد اللہ بن مسعود سے دریافت کیا گیا کہ دل اچھا ہے یا مردہ کیسے معلوم کیا جائے ؟ آپ نے فرمایا تین جگہوں پر اپنے کی دل کی جانچ کرو تمہارا دل مطمئن ہے تو سمجھ لو کہ دل زندہ ہے، اگر نہیں تو جان لو کہ دل مردہ ہو گیا، اللہ سے دوسرے دل کا سوال کرلو، وہ تین مواقع یہ ہیں۔ا۔ قرآن مجید کی سماعت کے وقت ۲۔ ذکر کی مجلس میں ۳۔ خلوت میں خداخوف

ا۔ قرآن کی سماعت ۔

سب سے پہلی چیز قرآن مجید کی سماعت ہے، قرآن مجید دنیا کی وہ واحد کتاب ہے جو آج بھی اپنی اصلی شکل میں محفوظ ہے، اور کیوں نہ ہو جس کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے لے رکھا ہے انا نحن نزلنا الذكر وان له لحافظون۔ ( الحجر ٩) اس کی طرف منسوب ہر عمل باعث اجروثواب ہے، اس کتاب کا پڑھنا ، سننا، سمجھنا غور وفکر کر نا تعلیم تعلم کرنا ، جہاں اخروی اعتبار سے فائدہ مند ہے، وہیں دنیوی لحاظ سے باعث خیر و برکت اور سامان تسکین قلب ہے، قرآن مجید کتاب ہدایت ہے، اس کتاب سے ہدایت اسے ہی نصیب ہوتی جو اس کا قدر داں اور طالب ہدی ہو ، جو اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوگا اس کیلئے حجت بنے گا، اور اگر کوئی اس سے روگردانی کریگا یعنی اسکی تعلیمات پر عمل آوری نہ کرے ان کے خلاف بروز قیامت گواہی دے گا، مولانا علی میاں ندوی فرماتے ہیں کہ تین باتیں ایسی ہیں وہ اگر مسلمانوں میں پائی جائیں تو کلام اللہ سے استفادہ ممکن نہیں ۔ وہ تین باتیں یہ ہیں ۔ ا۔ تکبر ۲- | قرآن مجید میں بغیر علم کے مجادلہ کرنا ۳۔ انکار آخرت اور دنیا پرستی (مطالعه قرآن کے اصول و مبادی) اور ا ہم اپنے اسلاف کی زندگیوں کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ وہ کس قدر قرآن کے قدر داں تھے، امام اسماعیل کی موت اس حالت میں آئی کہ و محراب مسجد میں محو تلاوت تھے، اسی طرح امام عبد الله بن ادریس پر جب موت کے آثار شروع ہوئے تو بیٹی دیکھ کر رونے لگی انہوں نے فرمایا بیٹی مت رو، تیرے باپ نے ١٤ ہزار قرآن ختم کئے ہیں ۔ ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قسمیہ قرآن کریم کے متعلق خبر گیری کی ترغیب فرمائی ۔ عن ابی موسى الأشعري : قال رسول الله الله تعاهدوا القرآن فوالذي نفسي بيده لهو اشد تفصيا من الابل في عقلها ( بخاری و مسلم بحواله مشكاة ۲۲۱۰ ) حضرت ابو موسی اشعری سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قرآن کریم کی خبر گیری کرتے رہا کرو اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے قرآن سینوں سے اتنی جلدی نکل جاتا ہے کہ اونٹ بھی اتنی جلدی اپنی رسی سے نہیں نکلتا۔

ذکر کی مجلس:

جس کادل کی ذکر کی مجلس میں بیٹھنے پر آمادہ ہو تو جان لو کہ اس آدمی کادل زندہ ورنہ وه دل مرده ہے یاد رکھو، ایک حدیث میں ذاکرین کو زندہ اور ذکر نہ کرنے والوں کو مردہ بتایا گیا ہے ، یعنی انکا دل ذکر نہ کرنےکی وجہ سےمردہ ہوگیا ان کی روحائیت زنده نہ رہی، عن ابی موسي الاشعرى قال قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم: مثل الذي يذكر ربه و الذي لا يذكر مثل الحی والمیت (بخاری و مسلم بحواله مشکواه ۲۸۲۵) روح کی تازگی اور اس کے بقاۓ حیات کے لیے ذکر غذا کے مانند ہے ورنہ وه قلب کا شمار مردوں میں ہوتا ہے ، قرآن مجید میں سكون قلب کا سامان ذکر کو بتایا گیا ہے الابذكر الله تطمئن القلوب (پاره ۱۳ ) صاحب مظہری نے فرمایا ذکر سے مراد قرآن اور سکون سے مراد ایمان ہے (تفسیر مظہری) کیونکہ ایمان دلوں کا ذریعۂ سکون اور نفاق والوں کی بے چینی کا سبب ہے۔ اللہ کی یاد سے شیطانی وساوس دور ہوتے ہیں جو انسان کیلئے پریشانی کا باعث ہیں ۔ ایک جگہ الله رب العزت نے ذکر کرنے والوں کو خوشخبری دی ہے کہ جو مجھے یاد کرتا ہے اسے میں یاد کرتا ہوں فاذکرونی اذکرکم (پاره ۲ ) مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ نے فرمایا ہے کہ بندہ اگر چاہے کہ اس کا تذکرہ اللہ کے یہاں ہو تو اس کو چاہئے وہ اللہ کے احکامات کو بجالائے کہ اس وقت میرا اللہ مجھ سے کیا چاہ رہا ہے، بزرگان دین نے اللہ کو یاد رکھنے کی آسان صورت یہ بتائی کہ آدمی جب او پر چڑھے تو الله اکبر نیچے اترے تو سبحان الله اور جب برابر چلے تو لا اله الا الله کہنے کا اہتمام کرے۔ حضرت عبد الله بن شفيق سے مروی ہیکہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر آدمی کے دل میں دو کوٹھریاں ہیں ایک میں فرشتے اور دوسرے میں شیطان رہتا ہے، جب آدمی ذکر کرتا ہے تو شیطان ہٹ جاتا ہے، اور اگر غافل ہوتو وساوس ڈالتا ہے (تفسیر مظہری)

خلوت میں خدا کا خوف:

تیسری چیز دل کے زندہ اور مردہ ہونے کی جو بیان کی گئی ہے، وہ خلوت میں خدا کا خوف ہے، ایک طویل حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سات ایسے آدمی ہیں جنکو اللہ قیامت میں اپنے عرش کے سایہ میں جگہ دے گا ، جسکے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا، اس میں سے ایک وہ آدمی بھی ہے جو تنہائی میں اللہ کے خوف سے روتا ہو، سبعة يضلهم الله في ظله يوم لا ظل الا ظله الخ ورجل ذكر الله خاليا ففاضت عيناه ( بخاری) آدمی کا تقوی تنہائی میں معلوم ہوتا ہے، جہاں اسکو کوئی نہ دیکھتا ہو اور نہ وہ کسی کو دیکھتا ہو ایسی جگہ پر اللہ سے ڈرے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اتق اللہ حیث ما کنت(ترمذی) تم جہاں کہیں بھی رہو اللہ سے ڈرو جلوت میں ہو یا خلوت میں، عبادات ہو یا معاملات غرض ہر موقع محل میں ہم اللہ سے ڈریں کہیں ہم سے اسکی خطا نہ ہوجائے اور وہ ہم سے ناراض ہوجائے ، قرآن مجید میں ایک مقام پر ارشاد باری ہے الا هو معهم این ما كانوا ثم ينبئهم بما عملوا يوم القيامة (سورة المجادله) اللہ فرماتا ہے تم جہاں کہیں بھی ہو اللہ تمہارے ساتھ ہے، اور کل قیامت کو بتلائے گا تمہارے کئے اعمال کو ، اسی طرح دوسری جگہ ہے تقوی اختیار کرنے والوں کو پانچ قسم کے انعامات سے نوازے گا پہلا انعام دنیا و آخرت کے مصائب و مشکلات سے نجات کا راستہ ہموار کریگا ، دوسرا انعام یہ ہے کہ اسکو روزی ایسی جگہ سے دیگا جہاں سے اسکو گمان بھی نہ ہوگا تیسر انعام یہ ہیکہ الله اس کے کام کو آسان فرمائے گا، چوتھا انعام یہ ہیکہ اسکی سیئات کو مٹا دے گا، پانچواں انعام یہ ہیکہ اسکے اجر کو بڑھا دے گا۔ (سورہ تحریم) حقیقت یہ ہیکہ تنہائی کا گناه آدمی کو خدا سے اس قدر دور کر دیتا ہے جس قد تنہائی کی نیکی قریب کر دیتی ہے ۔ اللہ کے یہاں ساری نوع انسانیت برابر ہے کسی کی برتری اور کمتری نہیں ہے، ماخلقكم ولا بعثكم الا کنفس واحده اگر کوئی اللہ کے یہاں اپنا مقام بنانا چاہے تو تقوی اختیار کرے، اللہ ارشاد فرماتا ہے ان اکرمکم عند الله اتقکم ۔ جسکا راس المال تقوی ہو وہ اس قدر نفع میں ہے زبانیں اسکے ذکر سے عاجز ہے۔ حضرت وابصه بن معبد سے مروی ہے ایک آدمی آ کر عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نیکی اور برائی کیا ہے؟ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم نیکی یا بدی کرو تو اپنے دل کی کیفیت معلوم کرو اگر وہ مطمئن ہے تو ٹھیک ہے کہ وہ نیکی ہے اور اگر کچھ کھٹک ہوجاۓ تو سمجھ جاؤ کہ بدی ہے کسی عربی شاعر نے کیا خوب کہا ہے

اذاخلوت بريبة في ظلمة والنفس داعية إلى الطغيان فاستح من نظر الإله وقل لها ان الذي خلق الظلام یرانی۔

جب تو کسی اندھیرے میں برائی کیلئے قدم اٹھائے، تیرے دل میں اس برائی کاداعیہ ہو تو اس وقت تو الله کی نظر سے دیکھ اور کہ اس سے جس نے اندھیری پیدا کیا ہے وہ مجھے دیکھ رہا ہے۔

Leave a comment

Translate »
× How can I help you?