دعا عبادت کا مغز ہے
از: محمد کفیل احمد حیدرآباد
امراؤ و رؤساء کے دربار میں اپنی فریاد اور ضرورت کو لیجانے میں جن مصیبتوں اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ذلت و رسوائی کی جس خار دار وادی میں چلنا پڑتا ہے اس سے بہت سے واقف ہوں گے، اس کے بالمقابل اللہ تعالیٰ نےاپنے دربار کو دنیا کے ان سرداروں کی طرح نہیں رکھا، ہر کسی کو اس دربار میں بلا واسطہ فریادی کی اجازت ہے، انسان و جن چرند و پرند سب اس در کے بلا واسطہ بھکاری ہے، اللہ ہر بندہ کی سنتا ہے، اپنے ہر بندہ سے اس کے شہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ وَ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ.( ق 16) ترجمہ: ہم انسان سے اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ اس سے مانگنے میں بہنے والا آنسو اس کے نزدیک ساتوں سمندروں کے پانی سے افضل ہے، کافر و مسلم کی قید کے بغیر ہر گڑگڑا کر مانگنے والے کی وہ فریاد پوری کرتا ہے أَمَّنْ يُجِيْبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَ يَكْشِفُ السُّوْءَ. ( النمل 62) ترجمہ: کون ہے جو گڑگڑانے والے کی سنتا ہے جب وہ اس کو پکارتا ہے اور اس کی تکلیف دور کرتا ہے۔ اللہ کے سوا کوئی نہیں جو تکلیف ہٹا سکے، دعاء عبادت ہے بلکہ دعاء عبادت کا مغز ہے اَلدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَةِ.( ترمذي 3371) ترجمہ: دعاء عبادت کا مغز ہے، دعاء میں وہ طاقت ہے جو حکومتوں کی تختیں پلٹ دے، مرنے والوں کو زندہ کردے، گھٹتی عمروں کو بڑھا دے، دعاء ظالموں کے ظلم پر قہر خداوندی بن کر برستی ہے، دعاء میں ہی وہ طاقت جو تقدیر کو بدل دے لَا يَرُدُّ الْقَضَاءَ اِلَّا الدُّعَاءُ، وَلَا يَزِيْدُ فِي الْعُمُرِ اِلَّا الْبِرُّ.( ترمذي 2139
خالق کائنات ہماری ہر ضرورت کو جانتا ہے لیکن وہ چاہتا ہے کہ ہم اس سے مانگے، اس کو اپنے بندوں کا مانگنا پسند ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَيْسَ شَيْئٌ أَكْرَمَ عَلَي اللّٰهِ تَعَالٰي مِنَ الدُّعَاءِ. ( ترمذي 3370) ترجمہ: کوئی چیز اللہ کے نزدیک دعاء سے زیادہ معتبر نہیں ہے۔ کوئی دعاء رد نہیں ہوتی، بندہ جب بھی دعاء کرتا ہے تو اس کی ہر جائز دعاء قبول ہوتی ہے یاتو مانگی ہوئی چیز عطاء کردی جاتی ہے یا اس کے بجائے کوئی تکلیف اس سے دور کردی جاتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَا أَحَدٌ يَدْعُوْ بِدُعَاءٍ اِلَّا آتَاهُ اللّٰهُ مَا سَأَلَ، اَوْ كَفَّ عَنْهُ مِنَ السُّوْءِ مِثْلَهُ مَا لَمْ يَدَعُ بِاِثْمٍ اَوْ بِقَطِيْعَةِ رَحِمٍ. ( مسند احمد 14879) ترجمہ: کوئی بندہ دعاء نہیں کرتا ہے مگر اسکو اللہ مانگی ہوئی چیز عطاء کرتا ہے یا اس سے اسی کے برابر کوئی تکلیف دور کرتا ہے جبکہ کسی گناہ یا قطع رحمی کو نہ مانگے۔
دعاء کرتے وقت پر امید ہونا چاہیے، اپنی خطاؤں پر نظر نہ ہو اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید ہو، اگر ہم سے اتنے گناہ بھی ہوجائے کہ سارے جہاں کو بھر دے تب بھی مایوس نہیں ہونا چاہیے، مایوسی سے اللہ نے منع فرمادیا لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَحْمَةِ اللّٰهِ.( الزمر 53) ترجمہ: لوگوں اللہ کی رحمت سے مایوس مت ہو۔ بس مانگنے کی دیر ہے پھر بندہ گناہوں سے صاف ہو جاتا ہے، اللہ کے دربار سے کوئی مایوس نہیں لوٹتا، اس کا خزانہ ختم ہونا تو درکنار کبھی کم بھی نہیں ہوتاہے، خوشی و تکلیف ہر وقت اللہ سے دعاء کرنا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی کے ہر کام کے لیے دعائیں بتائی ہے ان کو جاننا چاہیے اور زبان نبوت سے نکلے ہوئے الفاظ میں ان دعاؤں کو مانگنا چاہیے، صبح و شام کی دعاؤں کا اہتمام کرنا چاہیے، دعاء ہر لمحہ خدا کو یاد کرنے کا ایک ذریعہ ہے لہذا دعاؤں کی پابندی ضروری ہے، ایک کامل ایمان والے کے زبان پر ہر لمحہ دعا ہوتی۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں ہر لمحہ اپنی یاد میں رہنے والا بناۓ، اور دعاؤں کی لذت عطاء فرمائے۔ آمین