بھارتیہ مذاہب میں خدا کا تصور
از قلم: مفتی محمد کفیل احمد
ڈائریکٹر اسلامک ہب
انکار خدا کے نظریے پر ہم نے اب تک دو مضمون لکھے ہیں، پہلا “ارتقائی نظریہ اور انسان” جس میں وجودِ باری پر دلائل قائم کیے گئے تھے۔ دوسرا “خدا کی تلاش” جس میں ہم نے خالق و مدبر کے صفات بیان کیے، جن صفات کے نہ ہونے پر کوئی ذات خالق نہیں ہو سکتی ہے، اب ہم اس سلسلے کے تیسرے مضمون کو پیش کر رہے ہیں جس میں ہم بتائیں گے کہ دنیا کے مشہور مذاہب نے خالق و مدبر کی ذات کو کیسے پیش کیا؟ اور کس کا پیش کردہ نظریہ حقیقت سے قریب تر ہے۔
سب سے پہلے ہم قدیم ترین ہندوازم کے پیش کردہ نظریے کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ ہندوازم میں خداؤں کی تعداد بہت زیادہ ہے، اس مذہب میں ہر نفع نقصان پہنچانے والے کو خدا کا درجہ دیا گیا ہے، آج بھی کسی سادہ لوح ہندو کی غیر معمولی مدد پر وہ مدد کرنے والے کو خدا یا دیوتا کہنے لگ جاتا ہے، ہندوازم کا مطالعہ کرنے پر اندازہ ہوتا ہے کہ اس مذہب کی بنیاد کسی ایک شخص نے نہیں رکھی، بلکہ وقت کے گزرتے اس میں ترقی و تبدیلی آتی گئی ہے، اس مذہب میں ہر مظہر قدرت کے لیے علاحدہ خدا ہے۔ لیکن سب سے اہم تین خداؤں کو مانا جاتا ہے۔
١) برہما: یہ خدا دنیا کو پیدا کر کے فارغ ہو گیا، اس خدا کی پوجا نہیں کی جاتی ہے، کیونکہ اس سے کوئی خاص نفع متعلق نہیں ہے، اس لیے پورے بھارت میں برہما کے زیادہ مندر کبھی نہیں رہے، اب بھی صرف راجستھان کے ایک مندر کو برہما کا مندر تصور کیا جاتا ہے۔
٢) ویشنو: اس خدا کے بارے میں تصور کیا جاتا ہے کہ یہ نظام کائنات کو چلاتا ہے، اور یہ کائنات کا محافظ ہے، اس کو خوش کرنے کے لیے بہت پوجائیں کی جاتی ہیں، اور بہت سے تہوار بھی مناۓ جاتے ہے جیسے ہولی وغیرہ۔
٣) شیو: یہ خاتمے کا خدا ہے، کائنات کا خاتمہ یہی کرے گا، ہندو اس کی پوجا بہت زیادہ کرتے ہیں، اور یہ دعا مانگتے ہیں کہ وہ اس کائنات کو ختم نہ کریں، بتایا جاتا ہے کہ اس نے کوئی زہر پی رکھا ہے کہ جو انسانیت کو بہت پہلے ختم کرنے والا تھا، اس کے علامتی نشان لنگ پر دودھ ڈال کر مسلسل اس کو خوش کیا جاتا ہے تاکہ وہ زہر کا اثر نہ پھیلا دے۔
ہم ہندوازم کے ان تین بڑے خداؤں کا حال کمزوری و لا علمی میں خود ان کے بیان کردہ روایات سے سمجھتے ہیں، ہندوزم میں کوئی بھگت اپنی بری نیت چھپا کر بھگوان کی پوجا اور تپسیہ کرے تو بھگوان اس کو وردان دے دیتے ہیں، پھر بری نیت سے مطلع ہونے پر خود بھگوان کو افسوس ہونے لگ جاتا ہے، یعنی علم جو خدا کے لیے ایک ضروری صفت ہے بھگوان اس سے عاری ہے، جیسے برہما نے راون کو وردان دیا اور بعد افسوس کرنے لگا۔ اسی طرح ہندو دیوتا شیو نے اپنے خود کے بیٹے گنیش کو قتل کر دیا تھا، اور وہ جانتا بھی نہیں تھا کہ گنیش اس کا بیٹا ہے، یہ تو علم کا حال ہے۔ قدرت کا حال یہ ہے کہ گنیش کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے شیو مخصوص شرطوں کا محتاج تھا، جس کے نتیجے میں ہاتھی کا سر لگا کر اس کو زندہ کیا گیا۔ ہندوازم کے خداؤں کی آپسی جنگ بھی بہت مشہور ہے، جس میں ہر خدا اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہا ہوتا ہے۔ ہندوازم میں کسی کے ہندو ہونے کے لیے کوئی ضروری نہیں ہے کہ ان تین بڑے خداؤں کو مانا جائے بلکہ ہر ناستک یا آستک ان کے یہاں ہندو ہے۔ بس وہ ان کے طور طریق کو اپنائیں یا کوئی اس جیسا نیا طریقہ ایجاد کر کے ہندو بن سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوازم میں وقت کے بزرگوں اور علماء کو آہستہ آہستہ خدا بنا لیا گیا، پھر محبت یا فخر و تعصب میں اپنے آباء و اجداد کے لیے مختلف طاقتوں کو تصور کر لیا گیا، ان بزرگوں و علماء نے یقینا بہت کچھ انکشافات اور تحقیقات پیش کی ہوں گی، لیکن وہ خدا ہونے کی وجہ سے نہیں تھی، بلکہ ان کے علم کی وجہ سے تھی، ان تحقیقات کی بنیاد پر ان کو خدا تصور کرنا ایسے ہی ہے کہ وقت کے گزرتے آج کے کسی غیر معمولی صلاحیتوں والے شخص کو مستقبل میں خدا بنا دیا جائے جبکہ وہ انسان ہی ہے۔ عقیدت و محبت میں جب عقل کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے تو انسان اپنے محبوب کو یکتائے روزگار بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا ہے۔ ہندو ازم میں بھی ایسا ہی کچھ ہوا ہے۔
بدھ ازم اور جین ازم یہ دونوں مذاہب ہم زمانہ ہیں، یہ دونوں نظریات ہندوؤں کی طرف سے تخلیق کردہ طبقاتی نظام کے خلاف احتجاج کے طور پر قریب 2500 سال پہلے وجود میں آئے ہیں، ان دونوں مذاہب میں اصلا خدا کا تصور ہے ہی نہیں، یہ دونوں ناستک مذاہب ہے، لہذا تصور خدا کے اس مضمون میں ان سے متعلق بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن ہندو پروہتوں نے اپنی گدی بچانے کے لیے ان مذاہب کو ہندو ازم میں ضم کر دیا اور ان نظریات کے بانی یا ان کے بڑے رہنماؤں کو خدا بنا دیا، اس سے ہندوازم میں تصور خدا کا مضبوط بنیادوں پر قائم نہ ہونا واضح ہوتا ہے۔ ان شاءاللہ ابراہیمی مذاہب میں تصور خدا کے بارے میں اگلے مضمون میں بات ہوگی۔